کابل -- ملک میں دہشت گرد حملوں کے خونریز ترین چند ہفتوں کے بعد کابل میں ایک ملاقات کے دوران افغانستان کی طالبان حکومت میں اعلیٰ ترین شخصیات میں سے ایک نے خودکش بمباروں کی قربانیوں کو سراہا ہے۔
وزیر داخلہ سراج الدین حقانی، جو خود بھی ایک نامزد دہشت گرد ہیں جن کی گرفتاری پر 10 ملین ڈالر (900 ملین افغانی) انعام ہے، نے یہ تبصرہ سوموار (18 اکتوبر) کے روز انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں کیا تھا، جس پر 2018 میں بندوق بردار طالبان نے حملہ کیا تھا، جس میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے تھے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
طالبان کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور مقامی ذرائع ابلاغ نے منگل کے روز وزیر کی دعا کرتے ہوئے اور مردوں کو گلے لگاتے ہوئے تصاویر شائع کیں جو سابق طالبان خودکش حملہ آوروں کے خاندان کے افراد بتائے گئے ہیں۔
افغانستان کے ریاستی نشریاتی ادارے آر ٹی اے نے بتایا، "حقانی نے جہاد اور شہیدوں اور مجاہدین کی قربانی کی تعریف کی،" اور انہیں "اسلام اور ملک کے ہیرو" قرار دیا۔
اس میں کہا گیا کہ حقانی نے "زور دیا کہ ہمیں شہداء کی آرزوؤں کو کوئی بھی دھوکہ دینے سے باز رہنا چاہیئے" ، اور انہوں نے ہر خاندان کے لیے 125 ڈالر (11،000 افغانی) اور ایک پلاٹ دینے کا وعدہ کیا۔
سراج الدین کے والد جلال الدین کی جانب سے بنایا گیا حقانی نیٹ ورک طالبان کا سب سے پُرتشدد دھڑا ہے، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں کچھ سب سے زیادہ خونریز حملوں کا ذمہ دار ہے۔
اس کی مالی اور عسکری طاقت -- اور بے رحم ہونے کی شہرت -- کے صدقے، اس نیٹ ورک کو طالبان کے زیرِ سرپرستی رہتے ہوئے نیم خود مختار سمجھا جاتا ہے۔
حقانی کے دہشت گردی سے روابط
فروری میں، سابق افغان حکومت نے حقانی نیٹ ورک اور داعش-خراسان کے ارکان پر مشتمل دہشت گرد سیل کے ارکان کو گرفتار کیا تھا۔
طالبان اب "دولت اسلامیہ " (داعش-کے) کی خراسان شاخ سے لڑ رہے ہیں، جس نے حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تباہ کن خودکش بم دھماکے کیے ہیں۔
15 اکتوبر کو داعش کے خودکش حملہ آوروں نے قندھار کی فاطمیہ امام بارگاہ پر حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 33 افراد ہلاک اور 74 دیگر زخمی ہوئے تھے۔
8 اکتوبر کو ایک اور حملہ جس میں داعش-خراسان کے خودکش حملہ آور نے قندوز میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے تھے، اسے طالبان کو چین کے ساتھ تعلقات پر انتباہ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔