کابل -- افغان حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی سیاسی اور عسکری شاخوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات نے امن کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے اور تشدد میں اضافہ کیا ہے۔
نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان رحمت اللہ آندر نے کہا کہ تحریک کے سیاسی اور عسکری دھڑوں میں تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر ان میں، امریکہ-طالبان کے درمیان گزشتہ فروری میں طے پانے والے معاہدے کے بعد سے شدت آ گئی ہے۔
آندر نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "دوحہ میں طالبان کے سیاسی دھڑے کے نمائندوں نے دوحہ میں اتفاق کیا تھا کہ وہ القاعدہ، دولتِ اسلامیہ (داعش) اور دیگر عسکریت پسند گروہوں سے نہ صرف تعلقات ختم کر لیں گے بلکہ ان سے جنگ بھی کریں گے مگر ان کا فوجی دھڑا ایسا نہیں چاہتا ہے خواہ اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے"۔
انہوں نے کہا کہ اب، تحریک کے سیاسی دھڑے نے، اپنے عسکری ساتھیوں کی مداخلت کے بارے میں کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس نے عہد کیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی مزید میزبانی نہیں کرے گا اور اس نے ضمانت دی ہے کہ وہ افغانستان کو مستقبل میں امریکہ کے خلاف حملوں کے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان کا جنگ پر زور
لغمان اور فراہ صوبہ کے سابقہ گورنر آصف ننگ نے کہا کہ "جب طالبان کا سیاسی دفتر قطر میں پہلی بار کھلا تھا تو ان کے کچھ مندوبین مذاکرات کے لیے تیار تھے مگر دوسروں، خصوصی طور پر عسکری دھڑے کے اندر موجود نے، جنگ اور جنگ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے پر زور دیا تھا "۔
ننگ نے مزید کہا کہ "طالبان کی فوج کے ارکان نے دوحہ معاہدے کی منظوری نہیں دی تھی اور سیاسی نمائندوں کے ساتھ عدم اتفاق کیا تھا ۔۔۔ قطر میں۔ اس جھگڑے نے امن کے عمل کو سست کر دیا اور افغانستان میں تشدد میں اضافے کا باعث بنا"۔
انہوں نے کہا کہ جھگڑے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ عسکری دھڑے کے ارکان "جہاد" کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا واحد راستہ تصور کرتے ہیں۔
دریں اثناء، سیاسی دھڑہ ایک حدیث کا حوالہ دیتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنگ میں "دشمن کے ساتھ شدید محاذ آرائی" سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے نقصان، تباہی اور خطرات پیدا ہوتے ہیں۔
ننگ نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "بہت سے محفوظ ہتھکنڈوں، جیسے کہ مذاکرات، سے مقاصد اور فتح حاصل کرنا سے ممکن ہے"۔
ننگ نے کہا کہ "طالبان کے سیاسی راہنما ان مذاکرات کے دوران تشدد کو بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں مگر ان کے عسکری دھڑے نے اپنے سیاست دانوں کی خواہشات کے برعکس، ایسا کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں فیصلے کرنے والے ہیں اور طالبان کے سیاست دان جو بھی کریں اُس سے ان کی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کے عسکری دھڑے کی طرف سے تشدد میں اضافے نے ان کے سیاسی نمائندوں کو، جو مذاکرات کی قیادت کر رہے تھے، شرمندہ کیا ہے"۔
ایک سابقہ نائب صدر، محمد یونس قانونی نے 14 فروری کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے اندر کچھ حلقے، افغانستان سے امریکی فوجیوں کے چلے جانے کے انتظار میں ہیں، جس کے بعد وہ کابل پر حملہ کر کے اقتدار کر قبضہ کر لیں گے"۔
انہوں نے کہا کہ "ان کا خیال ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بات چیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کی نوجوان نسل اور اس کے عسکری دھڑے کا کہنا ہے کہ اب امن کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس کی بجائے وہ قوت سے اقتدار حاصل کرنا اور دوسرے نسلی گروہوں کو اہم کردار دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ تصور پیش کیا جا سکے کہ ان کا نظام سب کو شامل کرنے والا ہے"۔
قانونی نے کہا کہ "مگر طالبان کے بزرگ محافظین کا کہنا ہے کہ جنگ حل نہیں ہے اور ان کے لیے جنگ سے اقتدار حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، وہ اسے برقرار نہیں رکھ سکیں گے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اس نسل کا خیال ہے کہ مذاکرات اور امن ہی وہ راستے ہیں جن سے ہم دوسرے نسلی گروہوں کے ساتھ مستقبل میں حکومت قائم کر سکتے ہیں"۔
اقتدار کی جدوجہد
کابل سے تعلق رکھنے والے عسکری تجزیہ نگار مرزا محمد یارمند نے کہا کہ طالبان کے عسکری کمانڈروں کا کہنا ہے کہ چونکہ میدانِ جنگ میں وہ نقصان اٹھاتے ہیں اس لیے انہیں فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
یارمند نے کہا کہ طالبان کی فوج کے ارکان سوال کرتے ہیں کہ "سیاسی دھڑے کا ہماری طرف سے فیصلے کرنے کا کیا کام ہے؟"
انہوں نے کہا کہ "قیادت کی کونسلیں جیسے کہ کوئٹہ شوریٰ، پشاور شوری اور مانسہرہ شوری ۔۔۔ طالبان کے فوجی یونٹوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتی ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ذاتی مفادات اور اقتدار کی کشمکش نے طالبان کی صفوں میں تنازعات کو جنم دیا ہے"۔
کابل کے ایک اور سیاسی تجزیہ نگار سرور میمند نے کہا کہ طالبان کی فوج کے چند انتہائی انتہاپسند کمانڈر مذاکرات اور مفاہمت کو مسترد کرتے ہیں۔
میمند نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ اگر انہوں نے امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے، تو وہ اپنی 19 سالوں کی جنگ کو ضائع سمجھیں گے، کہا کہ وہ تشدد کو "جہاد" کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسے امریکہ اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف واحد حل سمجھتے ہیں اور وہ جنگ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ جنگ بندی اور امن مذاکرات سے ان کے عسکریت پسندوں کی سوچ بدل جائے گی جس سے ان کی صفوں میں بدنظمی پیدا ہو جائے گی۔
ایرانی، روسی اثر و رسوخ
دیگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا فوجی دھڑا سیاسی دھڑے کے فیصلوں کی کوئی پروا نہیں کرتا، اس کی بجائے وہ ایران اور روسی انٹیلیجنس سے ہدایات لیتے ہیں۔
کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار عنایت اللہ حافظ نے کہا کہ "طالبان کے ایسے عسکریت پسند جن کے ہمسایہ ممالک اور روسی و ایرانی انٹیلیجنس سے تعلقات ہیں، ہماری سیکورٹی فورسز سے جنگ کر رہے ہیں اور انہیں امن کی کوئی خواہش نہیں ہے"۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے مفادات جنگ کو جاری رکھنے، منشیات کی اسمگلنگ اور ہمسایہ ممالک سے مالی امداد حاصل کرنے میں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کے کچھ گروہ، ہمسایہ ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے احکامات کے تحت کام کرتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی دھڑے کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں"۔