کابل -- عید الفطر کے موقع پر ہونے والی تین روزہ عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد، اتوار (16 مئی) کو لڑائی کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد، طالبان کو کابل کے مضافات میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور وہ ایک ضلع سے محروم بھی ہو گئے۔
صوبائی کونسل چیرمین عطا اللہ افغان نے کہا کہ اتوار کی صبح کو اس وقت جھڑپیں شروع ہو گئیں جب طالبان نے ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ میں سیکورٹی کے ناکوں پر دھاوا بول دیا۔
جنوب میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ عارضی جنگ بندی کے ہفتہ کی رات کو ختم ہو جانے کے بعد، لڑائی کا دوبارہ سے آغاز ہو گیا ہے۔ دریں اثناء ہلمند کے گورنر کے دفتر نے کہا کہ افغان فورسز نے طالبان کے 21 لڑاکوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں، اتوار کو افغان نیشنل ڈیفینس اینڈ سیکورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے میدان وردک کے صوبہ میں طالبان سے ایک ضلع واپس لینے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔
کابل سے تقریبا 40 کلومیٹر کے فاصلے پر نرخ ضلع، طالبان کا گڑھ ہے اور یہ طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کے لیے دارالحکومت جانے کا راستہ اور ہلاکت خیز حملوں کا لانچ پیڈ تھا۔
وزارتِ دفاع کے ترجمان روح اللہ احمد زئی نے کہا کہ "آج، ہماری فورسز نے ضلع میں ایک اسٹریٹجک علاقے پر دوبارہ سے قبضہ کر لیا ہے"۔
اے این ڈی ایس ایف کی زیرِ قیادت
اے این ڈی ایس ایف کو امریکہ کی طرف سے انتہائی اہم فضائی امدد کی فراہمی ابھی بھی جاری ہے اگرچہ امریکہ اور نیٹو کی فورسز واپس جانے اور اہم چھاونیوں کو حوالے کرنے کا کام کر رہی ہیں ۔
وزاتِ دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا کہ انہوں نے ایک سال سے منصوبہ بندی اور فوجی مہمات سر انجام دینے کی قیادت کی ہے اور وہ آزادانہ طور پر طالبان سے لڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں، طالبان نے ہلمند، قندھار، بلغان، ہرات، فراہ اور غزنی کے صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف کسی اہم شہر یا صوبہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے بلکہ انہیں بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے کیونکہ اے این ڈی ایس ایف نے ان کے 1,000 سے زیادہ لڑاکوں، کمانڈروں اور اہم ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ جیسے جیسے طالبان اپنے حملوں میں اضافہ کریں گے ان کے مزید جنگجو ہلاک ہوں گے، کہا کہ "طالبان اے این ڈی ایس ایف کو شکست نہیں دے سکتے اور عسکری طریقے سے کسی بھی صورت میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتے"۔
امان نے کہا کہ "طالبان کو امن کے لیے اس وقت موجود موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے گا"۔
دونوں اطراف کے حکام نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کاروں کی ٹیموں نے جمعہ کو ملاقات کی تاکہ تعطل کے شکار مزاکرت کو دوبارہ سے شروع کرنے کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔
طالبان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا
وزارتِ امورِ داخلہ کے ترجمان نے زابل، بدخشاں، قندھار، غزنی، ہلمند، لوگر، ہرات، کنڑ، پکتیا، بلخ، تخار، جوازجان اور نمروز میں ہونے والی جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ ماہ کے دوران، ہزاروں طالبان جنگجو ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں"۔
آرین نے کہا کہ اہم طالبان کمانڈر مسلم منصور اور ملا داود ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
فوجی امور کے تجزیہ کار عزیز ستانکزئی نے کہا کہ "اگرچہ طالبان اپنے اہداف کے حصول کے لئے اپنی تمام تر جنگی صلاحیت کو استعمال کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اے ڈی ایس ایف محاذوں پر مورچہ بند ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے منصوبوں کو ناکام بنانے سے، اے این ڈی ایس ایف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبان سے جنگ کرنے اور انہیں شکست دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
کابل کے فوجی امور کے تجزیہ کار زلمے افغانیار نے بتایا کہ طالبان، ایسے علاقائی انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے کہنے پر، جو ان کی مدد کر رہے تھے، حالیہ دنوں میں اپنے حملوں میں تیزی لائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی طرف سے صوبوں اور اہم شہروں پر قبضہ کرنے کی کوششیں، عالمی برادری کو یہ دکھانے کے لیے ہیں کہ وہ قوت سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مگر طالبان کا حساب کتاب غلط ثابت ہوا۔
عام شہریوں پر حملے
کابل کے دشت برچی محلے سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے طالب علم سید محسن نے بتایا کہ میدان جنگ میں اپنی شکست کے بعد، طالبان نے شہریوں سے بدلہ لینے کی کوشش کی۔
انہوں نے 8 مئی کو اپنے پڑوس میں سید الشہدا اسکول کے باہر ہونے والے حملے میں اسکول کی درجنوں لڑکیوں کو ہلاک کرنے کا الزام طالبان پر عائد کیا۔ اسکول کے سامنے ایک کار بم دھماکہ ہوا اور جب طلبا باہر نکلے تو دو اور بم پھٹ پڑے۔
مغربی کابل کا نواحی علاقہ جہاں شیعوں کی ہزارہ نسل کی آبادی اکثریت میں ہے، میں ہونے والے دھماکے اس وقت ہوئے جب رہائشی عید الفطر سے قبل خریداری کررہے تھے۔ ان میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر طالبات تھیں اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
محسن نے کہا کہ طالبان نے لوگر کے صوبہ میں بھی درجنوں طلباء کو ہلاک اور زخمی کر دیا ہے۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار سلیم پائیگر نے کہا کہ طالبان نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے اپنے اختیار میں ہر فوجی حربے کو آزمایا ہے لیکن 20 سال کی جنگ کے بعد، انہیں احساس ہونا چاہئے کہ لڑائی حل نہیں ہے۔
پائیگر نے کہا کہ"طالبان کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ میدان جنگ میں ناکام ہوچکے ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ مذاکرات اور امن کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کریں۔"
بدخشاں سے تعلق رکھنے والے ولسی جرگہ کے رکن مولوی ذبیح اللہ عاطق نے کہا کہ امن قائم کرنے کا اب یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ انہوں نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔
عاطق نے کہا کہ "طالبان نے پچھلے 20 سالوں سے جنگ لڑی ہے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کے پاس جاری مذاکرات میں شامل ہونے اور حکومت کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"