پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) حکومت نے سنہ 2017 میں جب چین سے 394 ملین ڈالر (65 بلین روپے) مالیت کی ماس ٹرانزٹ بسیں منگوانے کا آرڈر دیا تھا، تو اسے توقع تھی کہ پشاور کے آمدورفت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اسے اعلیٰ کارکردگی کی حامل گاڑیوں کا دستہ ملے گا۔
اس کی بجائے، اسے کچھ کھٹارہ بسیں تھما دی گئیں۔
16 ستمبر کو، کے پی حکام کو پشاور میں نئی شروع کردہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) سروس کو معطل کرنا پڑا جب چینی ساختہ بس میں آگ لگ گئی، جس سے پرانی گاڑیوں کے سروس میں واپس آ سکنے تک مسافر خوار ہوتے رہے۔
یہ واقعہ 13 اگست کو نئی بس ٹرانزٹ سروس کے آغاز کے بعد سے چوتھا واقعہ تھا۔ کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
ایک بیان میں ریسکیو 1122 نے کہا کہ بس کو شہر کے حیات آباد علاقے میں اتوار بازار کے قریب آگ لگی۔
وزیرِ اعلیٰ کے پی کے ترجمان، کامران خان بنگش نے کہا کہ 16 ستمبر کو بس میں آگ ایئرکنڈیشننگ والے حصے میں لگی اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے اسے بجھایا۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے سروس معطل کر دی تاکہ وہ دستے میں شامل بسوں کا معائنہ کر سکیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ چین میں بس تیار کرنے والی کمپنی کی جانب سے بھیجے گئے مستری بسوں کو دوبارہ چلانے سے قبل تمام بسوں کا اچھی طرح معائنہ کریں گے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں بس کے اندر آگ لگنے اور گاڑھا دھواں نکلنے کی فوٹیجز دکھائی گئی ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان واقعات نے انہیں بسوں میں سفر کرنے میں بہت محتاط بنا دیا ہے۔
کالج کے ایک پروفیسر، محمد سلیم نے کہا، "تکنیکی امور میں چین کا ریکارڈ بہت بُرا ہے۔ بسیں ناقص معیار کی ہیں، اور بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے لوگوں کا بی آر ٹی پر سے اعتماد اُٹھ رہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ انہیں بی آر ٹی کے آغاز سے ہی شکوک و شبہات تھے کیونکہ چین ناقص معیار کا سامان تیار کرنے اور فروخت کر کے منافع کمانے کی کوشش کرنےکے لیے بدنام ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے باشندے چین سے ناراض ہیں کیونکہ اس نے عوامی سلامتی کو نظرانداز کرتے ہوئے بسیں فروخت کر کے بھاری منافع کمایا۔
بسوں میں سے ایک بس کے ڈرائیور، رحیم شاہ نے کہا، "بسوں کا معیار اتنا زیادہ اچھا نہیں ہے۔ یہ نئی بسیں ہیں، اور مجھے ڈر ہے کہ وہ ایک سال بھی نہیں نکال پائیں گی۔"
"حکومت کو یہ معاملہ چینی حکومت کے پاس اٹھانا چاہیئے۔"
ناقص بسوں کی فراہمی
بی آر ٹی منصوبہ اکتوبر 2017 میں شروع ہوا تھا جس میں کے پی حکومت کی جانب سے چین کو 220 بسوں کا آرڈر دیا گیا تھا جس کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 470 ملین ڈالر (78.2 بلین روپے) کا قرض دیا گیا تھا۔
ابھی تک، چین نے کُل 128 بسیں فراہم کی ہیں۔
چمکنی سے سفر کا آغاز کرتے ہوئے، بسیں روزانہ 27.5 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 31 اسٹیشنوں سے گزرتی ہیں اور کارخانو مارکیٹ پر اختتام ہوتا ہے۔ اسٹیشنوں کا درمیانی فاصلہ 825 میٹر ہے۔
پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، سوموار (21 ستمبر) کو دی نیوز انٹرنیشنل نے بتایا کہ کے پی نے قبل از وقت ہی بی آر ٹی بسوں کا دستہ منگوا لیا تھا۔
دی نیوز انٹرنیشنل نے بتایا کہ نتیجتاً، بسوں کو دو برس سے زائد عرصے کے لیے کھڑا رکھا گیا، جس سے نقائص میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کے پی نے چین کی میسرز ژیامن گولڈن ڈریگن بس کمپنی سے 8.4 ملین ڈالر (1.4 بلین روپے) کی جو بی آر ٹی بسیں خریدیں ان میں بہت حساس خامیاں پائی گئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ چینیوں نے سنہ 2018 کے وسط میں بسیں فراہم کر دی تھیں جبکہ کے پی کے آمدورفت کے منصوبے پر تعمیری کام ابھی ہو رہا تھا۔
دی نیوز انٹرنیشنل نے کہا، "بسوں میں سنگین خامیاں پائی گئیں ۔۔۔ بہت سی بسوں میں میکانکی مسائل پیدا ہو گئے یا انہیں پُراسرار طریقے سے آگ لگ گئی۔"
کے پی کو ابھی تک فراہم کردہ بسیں بیچز میں آئی ہیں۔
دی نیوز انٹرنیشنل کے مطابق، آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا، "دستے کی 51 بسیں میسرز ژیامن گولڈن ڈریگن بس کمپنی کی جانب سے فراہم کی گئیں۔۔۔ دستے کی نو بسوں کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، بمپر ٹوٹے ہوئے، ڈنٹ اور خراشیں اور عدم فعالی کی نقائص۔"
کے پی کے بس کے مسافروں کا کہنا تھا کہ چینی ساختہ بسیں ان لوگوں کے لیے بوجھ بن رہی ہیں جو ایسی آمدورفت پر انحصار کرتے ہیں۔
ایک مسافر، مشتاق خان، جو بس سسٹم استعمال کرتے ہیں، نے کہا، "اگر بسوں میں نقص پڑنا جاری رہا، تو ناصرف [مسافروں کو] مشکل پیش آئے گی، بلکہ چین کی وجہ سے حکومت کو سود کے ساتھ قرض بھی لوٹانا پڑے گا، جو ان غیر معیاری بسوں کے لیے ذمہ دار ہے۔"
مزید برآں، چینی بس ساز کمپنی تمام بسیں فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے جن کا اسے آرڈر دیا گیا تھا، اس وجہ سے چل رہی بسوں پر گنجائش سے زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے۔
مسافر خان نے کہا کہ بسوں کی قلت کی وجہ سے بس میں سیٹ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پشاور میں روزانہ تقریباً 4 لاکھ مسافر ماس ٹرانزٹ استعمال کرتے ہیں اور اب بہت سے مسافر چین کی بنی ہوئی بسوں میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے کی بجائے پرانی بسوں میں سفر کرنے کی طرف واپس لوٹ جائیں گے۔
پشاور میں ایک میڈیکل ٹیکنیشن، عدنان خان نے کہا، "اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں بھی بسیں ہیں، مگر ہم نے وہاں ایسا واقعہ ہونے کے متعلق کبھی نہیں سنا کیونکہ وہ چین کی بنی ہوئی بسیں نہیں ہیں۔ لیکن یہاں صورتحال خطرناک ہے۔"
'ایک مکمل مایوسی'
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ معمولی نقائص بھی مسافروں کے لیے بے آرامی کا سبب بن رہے ہیں۔
21 اگست کو، ایک بس گل بہار بس اسٹینڈ کے قریب راستے میں تکنیکی نقص کی وجہ سے بند ہو گئی تھی۔ انتظامیہ نے ٹریفک روک دی اور کھینچ کر بس کو لے گئے۔
ایک مقامی دکاندار، ہارون خان نے کہا، "معمولی سی خرابیاں بھی ہوتی ہیں جو فوراً ٹھیک کر لی جاتی ہیں۔ اس بہت بڑے منصوبے سے صرف چین کو فائدہ ہوا ہے۔ کے پی کی جانب سے کی گئی بھاری سرمایہ کاری سے ابھی مقامی آبادی کو فائدہ ہونا باقی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ہم محفوظ اور تیز بس سروس کا لطف اٹھانے کے لیے تین برس تک بیتابی سے انتظار کرتے رہے ہیں، مگر یہ مکمل طور پر مایوس کن رہی ہے۔"
پشاور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری الماس خان نے کہا، "500 سے زائد بسیں اور ویگنیں جو مرکزی اڈے سے کارخانو مارکیٹ تک چلتی تھیں انہیں بند کر دیا گیا، اور ان کے مالکان اب انہیں فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ہماری پرانی گاڑیاں چین سے خریدی گئی نئی بسوں سے کہیں بہتر ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ گاڑیاں چین کو واپس کر دے اور ان ممالک سے درآمد کرے جہاں کے اشیاء ساز اچھے ہیں۔"
کووڈ-19 سے لڑنے میں طبی اہلکاروں کی مدد کرنے کے ارادے سے پاکستان کی جانب سے چین سے خریدے گئے ناقص ذاتی حفاظتی آلات [پی پی ای]، ٹیسٹنگ مشینوں اور وینٹی لیٹرزکے بعد یہ غیر معیاری چینی بسیں خریدی گئی ہیں۔
ہسپتال کے عملے کا کہنا ہے کہ آلات سے مریضوں کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
پشاور میں ایک سرکاری ملازم، نبیل خان نے کہا، "چین کووڈ-19 بحران کے دوران ہسپتالوں کو غیر معیاری اشیاء فراہم کر کے پوری دنیا کو دھوکہ دیتا رہا ہے، جس سے مریضوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔"
خان نے کہا کہ بیجنگ حکومت معیاری آلات برآمد کرنے کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور کے پی حکومت کو بی آر ٹی بسوں کا معاہدہ منسوخ کر دینا چاہیئے۔