سلامتی

سندھ کے رہائشیوں نےصوفی مزار پر بم حملے کو دو برس پورے ہونے پر یگانگت کا مظاہرہ کیا

ضیاءالرّحمٰن

فروری 2017 میں صوفیوں کے لبادہ کی علامت، نارنجی لباس میں ملبوس ایک رقّاصہ اور فعالیت پسند، شیما کرمانی لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں رقصاں ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

فروری 2017 میں صوفیوں کے لبادہ کی علامت، نارنجی لباس میں ملبوس ایک رقّاصہ اور فعالیت پسند، شیما کرمانی لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں رقصاں ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی – متنوع مذاہب کے پیرو، امن کے فعالیت پسند اور دیگر پاکستانی ایک مہلک دہشتگرد حملے کے دوسال مکمل ہونے پر یاد منانے کے لیے اور اپنی قوت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے رواں ماہ کے اوائل میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر آئے۔

16 فروری 2017 میں – صوبائی صدرمقام، کراچی کے تقریباً 200 کلومیٹر شمال مشرق میں – سیہون میں مزار پر اس وقت خودکش حملہ ہوا جب مغرب کی نماز کے بعد دھمال کے نام سے معروف صوفی موسیقی اور رقص کی تقریب جاری تھی۔

اس دھماکے میں 85 افراد جانبحق ہوئے اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔"دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" (داعش) نے ذمہ داری قبول کی۔

اس بم حملے کے دو برس بعد تمام مذہبی عبادات کے لیے رواداری کو فروغ دینے اور متاثرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی غرض سے صوفی قلندر کے مریدین اور امن کے فعالیت پسندوں سمیت دیگر نے 800 سالہ قدیم سونے کے گنبد والے مقبرے پر تین روزہ عرس کی تقریبات میں شرکت کی۔

2015 کی ایک فائل فوٹو میں صوفی مزاروں پر حملوں کے خلاف کراچی کے علمائے دین کو احتجاج کرتے دکھایا گیا ہے۔ متعدد کالعدم گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں، جیسا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی نے متواتر پاکستان میں صوفی مزاروں کو ہدف بنایا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

2015 کی ایک فائل فوٹو میں صوفی مزاروں پر حملوں کے خلاف کراچی کے علمائے دین کو احتجاج کرتے دکھایا گیا ہے۔ متعدد کالعدم گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں، جیسا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی نے متواتر پاکستان میں صوفی مزاروں کو ہدف بنایا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی پولیس نے 20 فروری کو گڈاپ کے علاقہ سے ایل ای جے کے دو عسکریت پسندوں – فرقان بنگولزئی اور علی اکبر – کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، جو کہ مبینہ طور پر سیہون مزار کے خود کش حملے میں ملوث تھے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی پولیس نے 20 فروری کو گڈاپ کے علاقہ سے ایل ای جے کے دو عسکریت پسندوں – فرقان بنگولزئی اور علی اکبر – کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، جو کہ مبینہ طور پر سیہون مزار کے خود کش حملے میں ملوث تھے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

جب بمبار نے خود کو اڑایا، اس وقت قلندر کی ایک مرید اور شہدادکوٹ، کھوکھر، صوبہ سندھ میں غریب آباد کے علاقہ کی ایک مکین فردوس کھوکھر اپنے تین بچوں سمیت قلندر کے مزار پر تھی۔

اس کے دو بیٹے – کاشف اور زاہد – جانبحق ہو گئے، جبکہ وہ اور اس کی بیٹی آسیہ بری طرح سے زخمی ہو گئیں۔

کھوکھر کے لیے قلندر کا مزار ایک ممبعٴ سکون اور ایک ایسا مقام ہے جہاں وہ اپنے بیٹوں کے نقصان کے لیے ذہنی تشفی تلاش کرتی ہے۔

اس نے کہا، "گزشتہ برس میرے خاوند نے مجھے وہاں جانے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن میں اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں گئی کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے اپنے دو بیٹے کھوئے۔"

بم حملے کے دو برس مکمل ہونے پر وہ دوبارہ مزار پر گئی۔ کھوکھر نے کہا، "ہماری زندگی اور موت قلندر سائیں کے ساتھ ہے"۔

رواداری اور ہم آہنگی کا فروغ

بم حملے کی یاد منانے کے لیے کراچی کی ایک رقّاصہ اور فعالیت پسند، شیما کرمانی اپنی رقص کی ٹیم کے ہمراہ مذہبی زاہدوں کے ساتھ دھمال پیش کرنے کے لیے سیہون پہنچیں۔

صوفیاء کے لبادہ کی علامت نارنجی رنگ میں ملبوس کرمانی نے مزار کے احاطے میں رقص کیا، جبکہ دیہی سندھ سے لوک گلوکاروں کے ایک گروہ نے صوفی قلندر کے قصیدے گائے۔

کراچی کے حقوقِ نسواں کے ایک گروہ، تحریکِ نسواں کی سربراہ، کرمانی نے کہا کہ ان کی پرفارمنس کا مقصد رواداری اور ہم آہنگی کا فروغ تھا۔

یہ سیہون کا ان کا پہلا دورہ نہیں تھا۔ انہوں نے 2017 میں حملے کے صرف تین روز بعد وہاں پر یہی رقص پیش کیا تھا۔

کرمانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ایک اور سال پورا ہونے پر یاد منانے کی تقریب"منعقد کرنے کا بنیادی مقصد مزاروں اور عبادت گاہوں پر بم حملے کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف قوت کا مظاہرہ ہے"۔

انہوں نے کہا، "ایسی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد بین العقائد و مشترکہ رواداری کو مستحکم کرنا ہے۔"

کرمانی کے مطابق، تحریکِ نسواں صوبے میں دیگر مزارات اور مذہبی مقامات، جیسا کہ سدھوبیلا کے مندر، بھگت کنور رام کے آشرم، بدھا لال فقیر کی درگاہ اور سچل سرمست کے مزار تک اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کرمانی نے کہا، "ایسے مقدس مقامات تمام اعتقادات سے تعلق رکھنے والے زاہدوں کے لیے ہمیشہ سے رہے ہیں، کہ وہ آزادانہ طور پر اور مشترکہ رواداری سے وہاں جا سکیں۔"

کرمانی نے کہا کہ موسیقی اور دھمال کے رقّاصوں کے پاس سے آنے والی گھنٹیوں کی آوازیں ہمیشہ سے انسانیت کی صوفی روایات، بین الاعتقاد بھائی چارہ اور امن و رواداری کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرے کی یگانگت کا جزُ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی ان اعتقادات سے نفرت نے بم حملوں کو پیدا کیا۔

انہوں نے مزید کہا، "2017 میں اس فلسفہ پر براہِ راست حملہ کیا گیا، اور اب ہم سب کو اسے دوبارہ حاصل کرنے، محفوظ بنانے، اس کا تحفظ کرنے اور اسے فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔"

گرفتاریاں جاری

درایں اثناء، پولیس اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔

20 فروری کو کراچی پولیس نے کہا کہ انہوں نے سیہون مزار پر بم حملے کی تسہیل میں ملوث ہونے کے الزام میں فرقان بنگولزئی اور علی اکبر کے نام سے شناخت کیے جانے والے لشکرِ جھنگوی کے دو عسکریت پسندوں کو گڈاپ کے علاقہ سے گرفتار کیا۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے نومبر 2017 میں اس دھماکے کے تعلق سے – نادر علی جاکھرانی المعروف مرشد –ایک کلیدی ملزم کو گرفتار کیا۔

متعدد کالعدم گروہوں، جیسا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے متواتر پاکستان میں صوفی مزارات کو نشانہ بنایا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی محقق عبدالماجد باقی نے کہا کہ مزارات اور دیگر ثقافتی علامات پر حملے کرنے والے عسکریت پسند یہ کہہ کر اپنے لیے دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک نئی ثقافت اور شناخت تعمیر کرنے کے لیے ایسی تخریب لازم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے شدّت پسند اکثر صوفی اسلام سے متنازع فلسفہ کی پیروی کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500