پشاور -- پاکستان میں حال ہی میں نافذ ہونے والا ایک مسودۂ قانون، اگر قانون بن جاتا ہے، تو یہ سائبر دہشت گردی اور دیگر آن لائن جرائم کے خاتمے کا ایک ہتھیار بن سکتا ہے۔
سینیٹ نے 29 جولائی کو امتناعِ الیکٹرانک کرائم بل 2015، جو سائبر کرائم بل بھی کہلاتا ہے، منظور کیا تھا۔ صدر ممنون حسین نے اگست میں بل پر دستخط کر کے اسے قانون بنا دیا۔
حکام کے پاس اب سائبر دہشت گردوں اور دیگر آن لائن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ذرائع موجود ہیں۔
ایف آئی اے متحرک
قانون وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو دھمکیوں اور دیگر آن لائن جرائم کی چھان بین کرنے کے لیے بااختیار بناتا ہے۔ یہ نفرت انگیز تقریر، سبسکرائبر آئیڈنٹٹی ماڈیول (سم) کارڈز کے غیر قانونی اجراء اور الیکٹرانک دھوکہ دہی کے لیے سخت سزائیں دینے کا اختیار دے گا۔
ایک سزا یافتہ سائبر دہشت گرد کو 14 سال سزائے قید اور 50 ملین روپے (47،775 ڈالر) تک جرمانے کا سامنا کرنا ہو گا۔
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشے رحمان نے 29 جولائی کو سینیٹ کو بتایا، "قانون ان سائبر مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا ۔۔۔ جو ماضی میں اس وجہ سے سزا سے بچ جاتے تھے کہ کوئی قانون موجود نہیں تھا۔"
ایف آئی اے پشاور دفتر میں سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ایاز احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سائبر کرائم بل کی منظوری نے ہمیں سزا یابی حاصل کرنے کا ایک بہت ضروری راستہ دے دیا ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور سائبر دہشت گردی کے امکانات بھی ویسے ہی بڑھ رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ہم نے کئی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ رابطے بنا لیے ہیں ۔۔۔ جن کا سائبر مجرموں کو سزا دینے کا یہی ایجنڈا ہے۔"
پہلی گرفتاریاں
جب سے بل پارلیمنٹ سے ہو کر گزرا ہے اس کے بعد سے حکام نے سائبر جرائم کے الزامات سے متعلق کئی گرفتاریاں کی ہیں۔
15 اگست کی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، پہلی گرفتاری ضلع نوشہرہ، خیبرپختونخوا میں عمل میں آئی، جہاں ایک ملزم کو آن لائن ہراساں کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا۔
مبصرین احمد جیسے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ متفق ہیں کہ بل عسکریت پسندوں پر کڑی ضرب لگائے گا۔
اسلام آباد کے معظم بٹ، ایک بڑے وکیل جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں وکالت کرتے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس قانون کا اثر ہدف عناصر پر نمایاں ہو گا۔ اس میں عسکریت پسندی کے متعلقہ جرائم کے لیے سخت زبان اور مخصوص سزائیں دی گئی ہیں۔"
انہوں نے کہا، اس کا مطلب ہے کہ "مناسب نفاذ" ضروری ہے۔
دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف جنگ
بٹ نے اس امید کا اظہار کیا کہ بل "دہشت گردوں کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ایک لامحدود سلسلے ۔۔۔ کا سراغ لگانے اور اسے روکنے" میں حکام کی مدد کرے گا۔
انہوں نے کہا، "دنیا کے ممالک ۔۔۔ کو دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف ایک بین الاقوامی قانون وضع کرنا چاہیئے۔"
بٹ نے ایک اور تجویز پیش کی: سخت گیر عسکریت پسندوں کے لیے سزا کی شرح بڑھانے کے لیے قانون میں ترمیم۔
ایک اور مبصر نے عسکریت پسندوں کے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی مذمت کی۔
پشاور کی ایک مقامی این جی او ان سرچ آف جسٹس کے نائب چیئرمین، خالد داور نے پاکستان ٹوڈے کو بتایا، "دہشت گردی کے بڑے واقعات پر ایک سرسری نظر ظاہر کرے گی کہ معصوم لوگ فسادی 'جہاد' کے نعروں کے چنگل میں پھنس گئے جو عسکریت پسند اور کالعدم تنظیمیں انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتی ہیں۔"
انہوں نے کہا، "تبلیغ اور پراپیگنڈہ کرنے کے لیے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی نگرانی کی جانی چاہیئے تاکہ عسکریت پسندوں کو تنہا کیا جائے اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔"
انہوں نے کہا کہ نیا قانون "[عسکریت پسندوں کے] ڈیجیٹل نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے حکام کو ایک بااختیار قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں مسودۂ قانون کی با آسانی منظوری دہشت گردی کی خونریزی دیکھنے کے بعد اسے ختم کرنے کے عوامی عزم کا اظہار کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، "حکومت کے عزم کو ۔۔۔ مسودۂ قانون کے غیرمبہم متن اور سزاؤں کی سنگینی کے ذریعے ناپا جا سکتا ہے۔"
بہت اعلی خدا خوش رکھے
جوابتبصرے 2
saibar crime bill me kuch chezun ki wazahat krni chahiay jaisa k is me hai k kisi k khilaf koe bat na ki jay is trah to phir admi quran ki koe ayat bi nai upload kr sakta q k har ayat kisi na kisi k khilaf zaroor hai koe yahodeyun k khilaf to koe isaiyun k khilaf to koe mushrikeen k khilaf to koe kafirun k khilaf al gharz is me kafi chezun ki wazahat lazmi honi chahiay
جوابتبصرے 2