جرم و انصاف

پاکستان میں سائبر جرائم کی روک تھام کے لئے اہم اقدامات

جاوید محمود

اسلام آباد میں ایک پاکستانی صحافی لیپ ٹاپ کمپوٹر کی اسکرین پر فیس بک کے اس پیچ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) استعمال کرتی ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

اسلام آباد میں ایک پاکستانی صحافی لیپ ٹاپ کمپوٹر کی اسکرین پر فیس بک کے اس پیچ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) استعمال کرتی ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

کراچی - حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نفرت انگیز تقریر اور سوشل میڈیا پر عسکریت پسندی کی تشہیر پر پکڑ دھکڑ کرنے کے لیے نئے سائبر کرائم قوانین کو استعمال کر رہی ہے۔

انفرمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے قانونی مشیر ناصر ایاز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حکومت مختلف ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے ایک فریم ورک پر کام کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں نفرت، عسکریت پسندی اور دوسرے جرائم کو پھیلانے کے لیے بیرون ملک سے سوشل میڈیا کے استعمال کو ختم کیا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے پاکستان کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے انتہاپسندوں، عسکریت پسندوں اور مجرموں کو جو بیرون ملک سے پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں، پکڑ سکیں۔

ایاز نے سترہ نومبر کو کراچی میں ایک سیمینار میں شرکت کی جس کا عنوان "سائبر جرائم کا انسداد اور ان سے مقابلہ" تھا اور جسے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)، پریس اور الیکٹرانک میڈیا پر سندھ علاقائی کمیٹی کی چیرپرسن صاحبزادی ماہین خان نے منظم کیا تھا۔

ایاز نے کہا کہ اگرچہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشین اتھارٹی (پی ٹی اے) باقاعدگی سے ایسی ویب سائٹس اور لنکس کو بلاک کرتی ہے جو مذہبی نفرت، انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو ہوا دیتی ہیں مگر پاکستان ان ویب سائٹس کے خلاف کچھ نہیں کر سکا جنہیں بیرونِ ملک سے منظم کیا جاتا ہے جو کہ سوشل میڈیا کے لنکس اور استعمال کنندگان کا تقریبا اسی فیصد بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک جرائم کے انسداد کا قانون، 2016 کی منظوری کے بعد سے، پاکستانی حکومت اب ایسی پوزیشن میں آ گئی ہے کہ وہ بہت سے غیر ممالک کے ساتھ اب سائبر سیکورٹی کے دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون سوشل میڈیا اور انفرمیشن کی بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔

ایاز نے کہا کہ "اگر گوگل اور فیس بک پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں تو حکومت کے لیے سائبر کرائمز اور عسکریت پسندوں کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنا بہت آسان ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "جب ہم سائبر سیکورٹی کے دو طرفہ معاہدوں کو حتمی شکل دے دیں گے تو ہم ان ممالک کی مختصر فہرست تیار کریں گے جہاں سے انتہاپسند اور عسکریت پسند نفرت انگیز مواد پوسٹ کر رہے ہیں اور پاکستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں"۔

انفرمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت، وزارتِ قانون، ایف آئی اے اور دوسرے سرکاری شعبے ان تجاویز کو حتمی شکل دے رہے ہیں جنہیں سائبر جرائم کی حوصلہ شکنی کے لیے دو طرفہ معاہدوں میں شامل کیا جائے گا۔

ایک بڑھتا ہوا مسئلہ

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد شفیق نے کانفرنس کے موقع پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "2016 میں سائبر جرائم سے متعلقہ شکایات کی تعداد دوگنا ہو کر سات ہزار ہو گئی ہے کیونکہ پاکستان میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال وسیع ہو رہا ہے"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سیکورٹی کی تجزیہ نگار ہما بقائی نے کانفرنس کے موقع پر کہا کہ "سائبر جرائم دنیا بھر میں ٹریلین ڈالر سالانہ کا کاروبار ہے"۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد سوشل میڈیا کے ذریعے انتہاپسندی اور بنیاد پرستی پھیلا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔

شفیق نے کہا کہ ایف آئی اے کے ریسرچ ونگ نے ان ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے لنکس کی شناخت کر لی ہے جو پاکستان میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور عسکریت پسندی کی تشہیر کر رہے ہیں اور پی ٹی اے کی مدد کے ساتھ وہ ایسے سوشل میڈیا کے لنکس کو بلاک کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید دفاعی اقدامات کے تحت، ایف آئی اے نے طلباء کو سائبر اسکاوٹس کے طور پر تربیت دینا شروع کی ہے تاکہ ملک میں سائبر جرائم کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

شفیق نے اس سے پہلے کانفرنس میں کہا کہ سائبر جرائم کے زیادہ تر متاثرین بچے اور خواتین ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم تعلیمی اداروں میں جا رہے ہیں اور اس کے علاوہ معاشرے کے مختلف طبقات سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ سائبر سیکورٹی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے کیونکہ سائبر سپیس مستقبل میں جرائم کی جگہ کے طور پر ابھر رہی ہے۔

سائبر جرائم کے پانچ مراکز، مزید بنیں گے

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے ابھی تک سائبر کرائمز کے پانچ مراکز قائم کیے ہیں جن میں سے ایک اسلام آباد اور باقی چار صوبائی دارالحکومتوں میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ مزید مراکز قائم کریں گے اور عسکریت پسندوں اور مجرموں کی طرف سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے جنگ کے لیے عملے کو بھرتی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے اپنا پہلا سیمینار کراچی میں منعقد کیا ہے جو کہ سترہ نومبر کو منعقد ہوا اور اس سے مماثل دوسری تقریبات دوسرے شہروں میں منعقد کی جائیں گی تاکہ سماجی میڈیا کے غلط استعمال کے نقصانات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کی جا سکے۔

سندھ پولیس کے سابقہ انسپکٹر جنرل شاہد ندیم بلوچ نے سیمینار میں کہا کہ "پولیس کو سوشل میڈیا اور موبائل فونز کو دھیان سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ سائبر جرائم سے محفوظ رہ سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کو اپنے پاس ورڈز کو محفوظ رکھنا چاہیے اور جب کمپیوٹر اور موبائل فون استعمال نہ کر رہے ہوں تو لاگ آوٹ ہو جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سائبر جرائم ملک میں سماجی اور کاروباری شعبوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو اس خطرے کے خلاف لازمی طور پر حفاظتی اقدامات کرنے چاہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اسلام علیکم ۔ہمارے ملک پاکستان ذنداباد جیس نے پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کئ آنکھیں نکال دینگے۔۔۔ شوکریہ ۔۔محمد عاطف عباسی

جواب