ایران کی طرف سے بحری اتحاد کی تشکیل کی بدنام تجویز، خطے کے ممالک میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے، کیونکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال ایران کی طرف سے جاری عدم استحکام اور جارحیت کی مسلسل مہم کو "ادھار کی قانونی حیثیت" دینے پر بنیاد رکھتا ہے۔
2 جون کو خلیج میں بحری اتحاد بنانے کے ایران کے ارادے کا اعلان کرتے ہوئے، ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈم شہرام ایرانی نے دعویٰ کیا کہ نئی فوجی صف بندی، علاقائی پانیوں میں بحری جہازوں کی حفاظت کرے گی۔
اس نے اس اتحاد کے ارکان کے نام عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، قطر، بحرین، پاکستان اور ہندوستان بتائے ہیں۔
مجوزہ اتحاد کی دلالی روس اور چین کی طرف سے بھی کی جا رہی تھی، جنہوں نے مارچ میں خلیج عمان میں ایران کے ساتھ اپنی تازہ ترین مشترکہ بحری مشقیں منعقد کی تھیں۔
ایران - خلیجی اتحاد کے خیال پر پہلی بار نومبر 2019 میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا، جب ایران نے خلیج میں سلامتی اور جہاز رانی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے نام نہاد "ہرمز پیس انیشیٹو" کی تجویز پیش کی تھی۔
ایران اور خلیجی ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اس خیال کو منظور نہیں کیا گیا تھا۔
اس بار، ایران واضح طور پر سعودی عرب کے ساتھ اپنے چین کی ثالثی میں کیے جانے والے معاہدے پر اعتماد کر رہا ہے، جس پر مارچ میں دستخط ہوئے تھے، جس نے ریاض اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
لیکن بہت سے مبصرین ایسے اتحاد کے امکانات کو بہت کم قرار دیتے ہیں۔
'بے ہودہ خیال'
تجزیہ کاروں نے المشارق کو بتایا کہ خلیج میں ایک بحری اتحاد کا خیال ہی "مضحکہ خیز" ہے اور خطے میں ایرانی حکومت کی دشمنانہ پالیسیوں کے پیش نظر، جس سے استحکام اور امن کو خطرہ لاحق ہے، اسے ایک ناقابل حصول خواب قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تین جزائر ابو موسیٰ، تنب اکبر و اصغر پر تنازعہ سمیت مختلف وجوہات کی بنیاد پر، اس کے پڑوسیوں کے درمیان ایران پر بہت کم اعتماد موجود ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے خبر دی ہے کہ ابھی بدھ (2 اگست) کو، ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے فوجی مشقوں کے دوران ابو موسیٰ اور تنب اکبر پر افواج کو اتارا، جس میں بحری جہازوں، ڈرونز اور میزائل یونٹس نے حصہ لیا تھا۔
آئی آر جی سی کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے مشق کے دوران ایک نشر کیے جانے والے خطاب میں کہا کہ "ہم ہمیشہ سلامتی اور سکون کے لیے کوشش کرتے ہیں؛ یہ ہمارا طریقہ ہے۔"
کمبائنڈ میری ٹائم فورسز (سی ایم ایف) کے ترجمان ٹم ہاکنز نے کہا کہ "یہ اس وجہ سے غیر منطقی ہے کہ ایران، جو کہ علاقائی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہے، کا دعویٰ ہے کہ وہ ان پانیوں کی حفاظت کے لیے ایک بحری سیکورٹی اتحاد بنانا چاہتا ہے جس سے اسے خطرہ ہے۔"
کویت کے روزنامہ الجریدہ نے خبر دی ہے کہ کویتی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے ایک نامعلوم اعلیٰ سطحی ذریعے کے مطابق، کویت اتحاد کے بارے میں ایران کو جواب دینے میں "جان بوجھ کر سست" رہا ہے۔
الجریدہ کے مطابق اس دوران سلطنتِ عمان نے تہران کو مطلع کیا کہ وہ کسی بھی اتحاد میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ وہ اپنی غیر جانبداری کی پالیسی کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس وجہ سے وہ اس میں شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) میں مشرق وسطیٰ کے ایک سینئر سیکیورٹی فیلو، ایمائل ہوکیم نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ "خلیجی ریاستیں یہ [اتحاد] بالکل نہیں چاہتیں ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ خلیجی حکام کہہ رہے ہیں کہ "ایران کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے"۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ ایران - سعودی تعلقات میں بہتری کے باوجود، تعلقات اس حد تک آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جہاں ایک فوجی اتحاد پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے بھی اتحاد میں شامل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
عراقی سیاسی محقق عبدالقادر النیل نے خلیجی ریاستوں کو خبردار کیا کہ وہ ایران کے جھوٹ یا فریب پر مبنی اعلانات سے دھوکہ نہ کھائیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو ایران کی علاقائی مداخلت اور مسلح موجودگی پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ایران کے پاس عرب دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے اور خطے کو نگلنے کا مقصد رکھنے والا نوآبادیاتی ایجنڈا موجود ہے۔"
انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کو ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ اس مسئلے سے نپٹنا چاہیے۔
النیل نے کہا کہ ایک نیا اتحاد، مزید ایرانی مداخلت کا راستہ صاف کرے گا اور تہران کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کرے گا۔
'بد نیتی پر مبنی کارروائی'
النیل نے کہا کہ "میں ایک اتحاد کی تشکیل کو، ایران کی طرف سے بدنیتی پر مبنی ایک قدم سمجھتا ہوں جس کا مقصد خلیجی ریاستوں کے علاقائی پانیوں میں آئی آر جی سی کی موجودگی کو قانونی حیثیت دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ایک دفعہ جب یہ افواج تعینات ہو جائیں گی اور ایران یہ دعویٰ کرتے ہوئے عالمی برادری کو گمراہ کرنا شروع کر دیتا ہے کہ اس کی افواج سمندری رہبری کی حفاظت کے لیے موجود ہیں، تو وہ فوجی اڈے قائم کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ وہ ان اڈوں سے "اپنی افواج کو واپس نہیں بلائے گا، خواہ فریم ورک کے اندر موجود معاہدے ختم ہوجائیں۔"
ریاض میں کنگ سعود یونیورسٹی میں علمِ سیاسیات کے لیکچرار عبداللہ الدخیل نے کہا کہ "ایران نے خلیجی ریاستوں اور بڑی عالمی طاقتوں کے ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے خلیجی بحری اتحاد کے بارے میں بیانات دیے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ سفارتی تعلقات کی بحالی کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس قسم کے اتحاد کا قیام کامیاب ہو جائے گا کیونکہ خلیجی پانیوں میں ایران کی مسلسل جارحیت کی روشنی میں ممکنہ اتحاد کا قیام ناممکن ہے۔
الدخیل نے کہا کہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے تجویز کردہ اتحاد کا مقصد، امریکی افواج کی موجودگی کے حوالے سے خطے میں غیر ملکی افواج کی بلا جواز موجودگی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
لیکن ایران کو ان اتحادوں اور معاہدوں میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا جو چین اور روس کے اثر و رسوخ کی اجازت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ، منفی سیاسی اور اقتصادی نتائج کا باعث بن سکتا ہے جو خطے کو نئے تنازعات کی طرف لے جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے مجوزہ بحری اتحاد کے خیال کے پیچھے چین اور روس ہیں، کیونکہ وہ امریکہ اور تنظیم معاہدہ شمالی اوقیانوس (نیٹو) کے اراکین کی موجودگی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
قاہرہ سے ولید ابو الخیر نے اس رپورٹ کی تیاری میں تعاون کیا ہے۔