سلامتی

افغانستان میں کلیدی ٹی ٹی پی رہنما کی موت نے عسکریت پسند نیٹ ورک کو مزید اپاہج کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

گزشتہ 12 ستمبر کو افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے فوجی تحفظ پر معمور ہیں، جبکہ دیگر کابل کے جنوب میں ضلع چہار اسیاب میں افغان سپیشل فورسز کی چھاؤنی کے قریب ایک خودکش کار بم حملے کی جائے وقوعہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

گزشتہ 12 ستمبر کو افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے فوجی تحفظ پر معمور ہیں، جبکہ دیگر کابل کے جنوب میں ضلع چہار اسیاب میں افغان سپیشل فورسز کی چھاؤنی کے قریب ایک خودکش کار بم حملے کی جائے وقوعہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

پشاور – تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے تصدیق کی کہ اس کے کلیدی رہنماؤں میں سے ایک اور گروہ کا ایک اور رکن افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔

ٹی ٹی پی نے 7 فروری کو ایک بیان میں کہا کہ شیخ خالد حقانی، جنہوں نے گروہ کی مشاورتی کاؤنسل میں خدمات سرانجام دیں اور ایک نائب امیر بھی رہ چکے ہیں، 31 جنوری کو مارے گئے۔

ایک اعلیٰ پاکستانی طالبان رہنما نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک "مشن" کے دوران افغانستان کے اندر ہونے والے ایک تصادم میں حقانی کے قریبی ہمراز قاری سیف اللہ پشاوری بھی مارے گئے۔

افغان سیکورٹی فورسز نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، اور فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حقانی کس قسم کے مشن پر ہوں گے۔

حقانی کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورک سے منسلک ہیں، جو کہ افغان طالبان ہی سے منسلک ہے۔

ٹی ٹی پی نے ان اموات کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے۔

پاکستان میں شدت پسندوں سے متعلقہ تشدد کی بطورِ کل سطح میںگزشتہ سال ڈرامائی کمی آئی، اور – پاکستانی طالبان کے حلقہ کے گروہ کے قیام کے سال – 2007 کے بعد سے 2019 میں کم ترین اموات دیکھی گئیں۔

تجزیہ کاروں نے اس کمی کو شمالی وزیرستان اور خیبر کے ان قبائلی علاقوں، جہاں طالبان کے ہیڈ کوارٹرز تھے، میںطالبان کے خلاف عسکری جارحانہ کاروائیکے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آپریشنز کا مرہونِ منّت قرار دیا۔

2018 میں افغانستان میں ایک امریکی حملے میں ٹی ٹی پی کے قائد ملّا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی مزید پستہ ہو گئی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ حقانی کی موت عسکریت پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے کیوں کہ وہ ایک کلیدی رہنما تھے اور جنگجوؤں کو لیکچر دیا کرتے تھے۔

شورشی گروہوں کی حمایت میں کمی

شاہ نے کہا کہ حقانی کی ٹی ٹی پی میں تعظیم تھی "کیوں کہ وہ ایک نظریاتی قائد تھے اور ان کے پیروکار ان کے الفاظ کو سنجیدگی سے لیتے تھے۔"

انہوں نے کہا، "ان کے قتل سے یقیناً ٹی ٹی پی عسکریت پسند کمزور ہوں گے جنہیں افغان فورسز کی جانب سے بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو جارحانہ طور پر شکار کرنے والی بین الاقوامی اور افغان فورسز سے فرار ہونا ان کے لیے نہایت مشکل ہے۔ چند برس قبل، شہری ٹی ٹی پی کو پناہ فراہم کیا کرتے تھے، لیکن اب عسکریت پسند اپنی بیشتر حمایت کھو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا، "مستقبل قریب میں ٹی ٹی پی کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ افغان فورسز دلیری سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔"

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں علومِ سیاسیات کے ایک ماہر عبدالرّحمٰن نے کہا کہ حقانی کی قد وقامت کے ایک رہنما کا قتل ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں ٹی ٹی پی کو متعدد رہنماؤں سے ہاتھ دھونا پڑے، لیکن افغان فورسز کی جانب سے حقانی کا قتل ٹی ٹی پی تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

رحمٰن نے کہا، "اس ہلاکت سے ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ حکومتی فورسز کے سامنے سخت مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان ہر دو میں حقانی کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی عسکریت پسند "حدت محسوس کر سکیں گے۔ عسکریت پسند بہادری سے نہیں لڑ سکیں گے۔"

[پشاور سے اشفاق یوسفزئی نے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

عزیزم جناب، ہم آپ کی ویب سائیٹ کو بہت پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ نہایت واضح اور درست معلومات شائع کرتی ہے۔

جواب