اسلام آباد – بااثر افغان سیاسی قائدین کے ایک وفد اور پاکستانی عہدیداران نے مری میں اس امر پر اتفاق کیا کہ دونوں ملکوں کے مابین اعتماد پیدا کیا جائے اور متعدد شعبہ جات میں تعاون بڑھایا جائے۔
اتوار (23 جون) کو بھوربن میں ایک سیّاحتی مقام پر دو خودمختار پاکستانی تھنک ٹینکس – لاہور مرکز برائے تحقیقِ امن (ایل سی پی آر) اور جنوبی ایشیائی ادارہ برائے تضویری استحکام (ایس اے ایس ایس آئی)— کی جانب سے منظم کی گئی "افغانستان امن کانفرنس" میں افغانستان سے 50 سے زائد سیاستدانوں نے شرکت کی۔
افغان شرکاء کی اکثریت کا تعلق حزبِ اختلاف سے تھا، جن میں ستمبر کے انتخابات لڑنے کے لیے متعدد صدارتی امّیدواران بھی شامل ہیں۔
قابلِ ذکر شرکاء میں حزبِ اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار، ہائی پیس کاؤنسل کے چیئرمین محمّد کریم خلیلی، بلخ کے سابق گورنر عطا محمّد نور، سابق ثانوی ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو محمّد محقق اور قومی سلامتی کے سابق مشیر اور صدارتی امّیدوار محمّد حنیف اتمار شامل ہیں۔
یہ تقریب 27 جون کو مزاکرات کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے سرکاری دورہٴ پاکستان سے قبل منعقد ہوئی۔
غنی نے 4 جون کو کہا کہ یہ دورہ "دوطرفہ تعلقات، جنہیں اکثر عدم اعتماد اور دونوں طرف سے الزام کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، کو بہتر بنانے" کی ایک کاوش کا جزُ ہے۔
جنوری میں افغانستان مفاہمت کے لیے امریکی نمائندہٴ خصوصی زلمئے خلیلزاد، اور امن و علاقائی اتفاقِ رائے کے لیے غنی کے خصوصی ایلچی محمّد عمر داؤدزئی نے بھی افغانستان میںامن کے عملکو تقویت دینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔
دیرپا امن کے لیے تعاون
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان قائدین کی شرکت نے اس کانفرنس کو کامیاب بنایا۔
پاک-افغان تعلقات پر نگاہ رکھنے والے ایک اسلام آباد اساسی تجزیہ کار طاہر خان نے کہا کہ افغان قائدین کو مدعو کر کے "پاکستان نے افغانستان کی 17 سالہ شورش کے خاتمہ کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔"
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے نمایاں سیاسی رہنماؤں جیسے فریقین کی شرکت مفاہمت کے عمل کو مزید جامع اور بارآور بنا رہی ہے۔
شرکاء خطے میں امن لانے کے لیے تعلقات اور کاوشوں کو پرجوش بنانے کے لیے پرامّید تھے۔ تمام نے افغانستان میں کئی برسوں پر محیط خونریزی کے خاتمہ کی فوری ضرورت کو خط کشیدہ کیا۔
کانفرنس کا افتتاح کرنے والے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنی کاوشوں کو جاری رکھے گا۔
قریشی نے کہا، "پاکستان ایک ایسے افغانستان کا حامی ہے جو بطورِ خود پرامن ہو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن ہو۔ پاکستان افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے خلوصِ نیت کے ساتھ پورے دل سے اور ایک مشترکہ ذمہ داری کے طور پر افغان امن کے عمل کی تسہیل کی ہے، اور وہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
حکمت یار نے اپنے جنگ سے تباہ حال ملک کے لیے امن کے جاری عمل میں پاکستان کے کردار کی ستائش کی۔
حکمت یار نے ایناڈولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا، "پاکستان ایک نہایت اہم ملک ہے، اور اسلام آباد افغانستان میں امن لانے کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، اور اب وہ کر رہا ہے۔"
اتمار کی امن و مصالحت ٹیم کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بھی یہ کہا گیا کہ وہ پاکستان میں اجلاس سمیت، افغانستان میں قیامِ امن کے مقصد سے ہر مخلصانہ کاوش کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔
اس میں کہا گیا، "ہم امن و مصالحت کی حمایت میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور یہ امّید کرتے ہیں کہ پاکستان کا یہ اقدام جلد بین الافغان مزاکرات کی راہ ہموار کرے گا۔"