سفارتکاری

امریکی ایلچی کا افغان امن کے لیے شرائط طے کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ

ضیاء الرحمان

افغان مصالحت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خالدزاد (درمیان میں دائیں) نے 5 اور 6 اپریل کو پاکستانی حکام سے مذاکرات کیے۔ ]پاکستانی حکومت/ ٹوئٹر[

افغان مصالحت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خالدزاد (درمیان میں دائیں) نے 5 اور 6 اپریل کو پاکستانی حکام سے مذاکرات کیے۔ ]پاکستانی حکومت/ ٹوئٹر[

اسلام آباد -- افغانستان میں مصالحت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائںدے زلمے خالدزاد نے ہفتہ (6 اپریل) کو پاکستان کے دو روزہ دورے کا اختتام کیا جو کہ افغانستان میں تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے ایک سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔

خالدزاد کابل میں پانچ دن گزارنے کے بعد، جمعہ (5 اپریل) کو اسلام آباد پہنچے۔

تازہ ترین کثیر ملکی دورہ کے حصہ کے طور پر، خالدزاد بدھ (10 اپریل) کو واشنگٹن واپس جانے سے پہلے قطر، افغانستان، پاکستان، ازبکستان، اردن، برطانیہ اور بیلجیم کا دورہ کریں گے۔

خالدزاد نے 18 سے 21 جنوری تک انڈیا، چین، افغانستان اور پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس وقت سے اب تک انہوں نے افغانستان اور علاقے کے دوسرے ملکوں کی قیادت کے ساتھ کئی میٹنگز کی ہیں۔

اپنے پاکستان کے گزشتہ دو روزہ دورےمیں جو کہ 17 اور 18 جنوری کو ہوا تھا، خالدزاد نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی تھی۔

پاکستانی راہنماؤں سے ملاقات

اپنے تازہ ترین دورے میں، خالدزاد نے پاکستان کے سول اور عسکری راہنماوں سے ملاقات کی جن میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ اور چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ شامل ہیں۔

خالدزاد نے قریشی کو امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے تازہ ترین مذاکرات کے بارے میں بریف کیا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے افغانستان اور علاقے بھر میں اپنی ملاقاتوں اور بین- افغان مذاکرت کی قوتِ محرکہ کے بارے میں بتایا۔

وزارت نے کہا کہ اپنے کردار میں، قریشی نے کہا کہ وہ خالدزاد کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں اور انہوں نے امن کے عمل کے لیے پاکستان کے عہد کو ایک بار پھر دہرایا۔

وزارت کے مطابق، دریں اثنا، باجوہ اور خالدزاد نے "علاقائی سیکورٹی کی صورتِ حال اور جاری افغان امن مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی"۔

اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے نے پیر (8 اپریل) کو ان کے دورہ کے اختتام کے بعد ایک بیان میں کہا کہ خالدزاد نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سفر کو ممکن بنانے میں پاکستانی راہنماؤں کی مدد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ "دونوں اطراف نے اس بارے میں بات چیت کی کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے اور علاقائی اقتصادی انضمام اور ترقی کے لیے مواقع کو کھولا جا سکتا ہے"۔

اس میں مزید کہا گیا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان امن کے عمل کی مدد کرنے میں مثبت کردار ادا کرنا جاری رکھے۔

خالدزاد نے ٹوئٹر پر "افغان امن کے عمل کو مدد فراہم کرنے اور اس بات کی دوبارہ سے یقین دہانی کروانے میں کہ حتمی طور پر صرف اور صرف افغان شہری ہی اپنے مسقتبل کا فیصلہ کریں گے" پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

امن کے لیے شرائط کو طے کرنا

سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ خالدزاد کی کوششیں امن کے عمل کے لیے نہایت اہم ہیں۔

کابل میں اپنے قیام کے دوران، خالدزاد نے افغان حکومت کے حکام، حزبِ مخالفت کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے نمائںدوں کے ساتھ کام کیا تاکہ ان کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی جا سکے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکرات کاروں کی ایک نمائندہ ٹیم تیار کریں۔

پاک افغان معاملات کے بارے میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار، طاہر خان نے کہا کہ خالد زاد کا کئی ملکوں کا دورہ، دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایک نئے دور کے آغاز سے کچھ دن پہلے ختم ہو جائے گا۔

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "افغان طالبان اور افغانستان کی سیاسی قیادت کے راہنما قطر کے دارالحکومت میں تیرہ اور چودہ اپریل کو مذاکرات کے ایک دور میں شرکت کریں ہے"۔

پاکستانی قانون ساز اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رکن شاہد خٹک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستانی حکومت افغانستان میں جنگ کا خاتمہ کرنے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔

انہوں نےطورخم سرحدی کراسنگافغان مہاجرین کو پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دینے کے خان کے فیصلے کا حوالہ دیا۔

خٹک نے کہا کہ "دونوں ممالک عسکریت پسندی اور تشدد سے انتہائی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ان کے شہریوں کو امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے"۔

کابل کے ایک محقق بلال الخوزئی جو کہ امن مذاکرات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں نے کہا کہ خالدزاد اور ان کے دوروں نے پاکستانی حکام کو مجبور کیا ہے کہ وہ طالبان کو اس بات پر تیار کریں کہ وہ افغان حکام کو امن کے عمل میں شامل کریں۔

الخوزئی نے کہا کہ "خالدزاد تمام فریقین کو ایک بات پر متفق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں خصوصی طور پر طالبان، افغان حکومت اور پاکستانی حکام کو تاکہ افغانستان میں تصفیہ کی راہ ہموار کی جا سکے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500