چترال -- تشدد، ہراسگی اور دوسرے جرائم سے متاثر ہونے والی خواتین اور بچے اب خیبر پختونخواہ (کے پی) کی چترال ڈسٹرکٹ میں خواتین اور بچوں کے امدادی مرکز میں مفت قانونی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔
کے پی پولیس نے سرحد دیہی امدادی پروگرام، چترال ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور کے پی کے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ کے تعاون کے ساتھ، یہ مرکز قائم کیا ہے جس کا آغاز 19 فروری کو ہوا اور اس کا مقصد خواتین اور بچوں کو تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔.
چترال کے ایک پولیس انسپکٹر محسن الملک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ مرکز جو کہ چترال سٹی پولیس اسٹیشن کے برابر واقعہ ہے، کا مقصد خواتین اور بچوں کے حقوق کی حفاظت کرنا اور انہیں جرائم سے حفاظت فراہم کرنا ہے۔
محسن الملک کا کام چترال ڈسٹرکٹ کے 18 پولیس اسٹیشنوں سے خواتین سے متعلقہ مسائل کے بارے میں شکایات وصول کرنا اور انہیں امدادی مرکز کو فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "مردانہ حاکمیت والے معاشرے میں، خواتین شکایات کے لیے عمومی طور پر عام پولیس اسٹیشن جانے سے ہچکچاتی ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے مرکز کے لیے خواتین افسران کو تعینات کیا ہے تاکہ خواتین آزادی سے ان سے بات چیت کر سکیں"۔
آگاہی پھیلانا، سماجی ممنوعات کا خاتمہ
محسن نے کہا کہ چونکہ چترال میں بہت سی خواتین زیادہ تر وقت اپنے گھروں میں گزارتی ہیں اس لیے حکومت نے مقامی زبان میں ایک ایف ایم ریڈیو پروگرام شروع کیا ہے تاکہ انہیں اس نئے قدم کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ عوام کو جنسی ہراسگی، گھریلو تشدد، جبری اور کم عمری کی شادی اور ملازمت اور"گمشدہ خواتین اور بچوںکی اطلاع دینے کے لیے اس مرکز میں آنا چاہیے.
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ مقامی آبادی اس قدم کی حمایت کرتی ہے کہا کہ "یہ مرکز صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلا رہتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "مقامی شہری اس مرکز کے بارے میں انتہائی خوش ہیں"۔
مقدمات کو جلد از جلد نپٹانا
چترال بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد خان نے کہا کہ مرکز کو ابھی تک تین کیس ملے ہیں اور پولیس ان کی تفتیش کر رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مخصوص حالات کے باعث، خواتین اکثر تشدد اور دوسرے جرائم کے واقعات کے بارے میں شکایت درج کروانے کے لیے پولیس اسٹیشنوں سے رابطہ کرنے میں ہچکچاتی ہیں"۔ اس وجہ سے "ہم نے مرکز میں خواتین وکلا کو تعینات کیا ہے جو متاثرہ خواتین اور بچوں کو مفت قانونی امداد فراہم کریں گی"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم عوام میں آگاہی کو بڑھانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ہمیں زبردستی اور کم عمری کی شادیوں اور خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے بارے میں سننے کو ملتا رہتا ہے مگر جن فریقین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ سماجی ممنوعات کے باعث شکایت درج نہیں کرواتے"۔
خان نے کہا کہ چترال ڈسٹرکٹ میں تمام 18 پولیس اسٹیشنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے تمام واقعات کو نئے مرکز بھیج دیں تاکہ ان کے بارے میں چھان بین جلد از جلد بنیادوں پر کی جا سکے۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ یہ مرکز درست سمت میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے اور اس سے خواتین کو خودمختار بنانے میں مدد ملے گی کہا کہ خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے لیے انہیں امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ کرنا
پشاور میں کے پی سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ کے ساتھ منسلک ایک اہلکار نگار حسین نے کہا کہ مقامی برادری نے نئے مرکز کو خوش آمدید کہا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ مرکز میں خواتین کی مدد کرنے کے لیے بہت سے رضاکاروں نے اپنی خدمات کی پیشکش کی ہے، پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "شہریوں کو امید بندھ گئی ہے کہ یہ مرکز ان مشکلات کا خاتمہ کر دے گا جن کا سامنا خواتین کو کرنا پڑتا ہے اور وہ اکثر تشدد کا نشانہ بننے والا فریق ہوتی ہیں"۔
چترال کی شہری اور پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ، 21 سالہ سیمن بیگم نے نئے مرکز کے افتتاح کی تعریف کی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس وقت خواتین کے خلاف تشدد کے بہت سے واقعات پیش آ رہے ہیں مگر کوئی ان کے بارے میں پریس یا پولیس کو رپورٹ نہیں کرتا۔ یہ صورتِ حال خواتین کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے"۔
بیگم نے کہا کہ چترال میں ترقی ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے جس کا مطلب ہے کہ خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مزید مراکز کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ "خواتین ملکوں کی ترقی میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ہم ان کی صلاحیتوں کو صرف اسی صورت میں استعمال کر سکتے ہیں اگر انہیں تشدد کے خلاف تحفظ میسر ہو اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع دیے جائیں"۔