سلامتی

تصاویر میں: پاکستان-افغانستان سرحد کو محفوظ بنانا

پاکستان فارورڈ

کیموفلاج شدہ پاکستانی فوج کا ایک سنائپر، 18 اکتوبر کو کٹن آرچرڈ پوسٹ، شمالی وزیرستان میں، افغانستان کی سرحد کے ساتھ لگائی جانے والی نئی باڑ پر اپنی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

کیموفلاج شدہ پاکستانی فوج کا ایک سنائپر، 18 اکتوبر کو کٹن آرچرڈ پوسٹ، شمالی وزیرستان میں، افغانستان کی سرحد کے ساتھ لگائی جانے والی نئی باڑ پر اپنی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستانی فوجی، شمالی وزیرستان اور افغانستان کو الگ کرنے والی نئی باڑ شدہ سرحد کے ساتھ 18 اکتوبر کو گشت کر رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستانی فوجی، شمالی وزیرستان اور افغانستان کو الگ کرنے والی نئی باڑ شدہ سرحد کے ساتھ 18 اکتوبر کو گشت کر رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر، انگور اڈا، جنوبی وزیرستان میں پکتیکا صوبہ، افغانستان کے ساتھ نئی باڑ شدہ سرحد کے قریب 18 اکتوبر کو گشت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر، انگور اڈا، جنوبی وزیرستان میں پکتیکا صوبہ، افغانستان کے ساتھ نئی باڑ شدہ سرحد کے قریب 18 اکتوبر کو گشت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستانی فوجی، انگور اڈا، جنوبی وزیرستان اور افغانستان کے پکتیکا صوبہ کو الگ کرنے والی نئی باڑ کے قریب 18 اکتوبر کو گشت کر رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستانی فوجی، انگور اڈا، جنوبی وزیرستان اور افغانستان کے پکتیکا صوبہ کو الگ کرنے والی نئی باڑ کے قریب 18 اکتوبر کو گشت کر رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ابھی تک، کارکنوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر 43 کلومیٹر طویل باڑ لگائی ہے۔ پاکستانی فوج کے حکام کے مطابق، 2018 کے اختتام تک پوری سرحد پر باڑ لگا دی جائے گی۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ابھی تک، کارکنوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر 43 کلومیٹر طویل باڑ لگائی ہے۔ پاکستانی فوج کے حکام کے مطابق، 2018 کے اختتام تک پوری سرحد پر باڑ لگا دی جائے گی۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی فوجی، شمالی وزیرستان میں کٹن آرچرڈ پوسٹ پر، افغانستان اور پاکستان کی نئی باڑ شدہ سرحد کے ساتھ 18 اکتوبر کو گشت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی فوجی، شمالی وزیرستان میں کٹن آرچرڈ پوسٹ پر، افغانستان اور پاکستان کی نئی باڑ شدہ سرحد کے ساتھ 18 اکتوبر کو گشت کر رہا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

انگور اڈا، جنوبی وزیرستان -- پاکستانی فوج نے بدھ (18 اکتوبر) کو صحافیوں کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر مدعو کیا تاکہ انہیں مسام دار، عسکریت پسندی سے متاثر سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کی جانے والی اپنی کوششوں سے آگاہ کیا جا سکے۔

کئی دیہائیوں تک، افغان طالبان، القائدہ اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے علاقے میں بلا خوف و خطر کام کیا ہے اور وہ اپنی مرضی سے نوآبادیاتی دور کی اس سرحد کو پار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان نے طویل عرصے سے ایک دوسرے پر سرحدی علاقے میں ایسی پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے جہاں سے عسکریت پسند تباہ کن سرحد پار حملے کرتے تھے۔

ایک تقریبا 10 فٹ لمبی چین لنک باڑ، جس پر خاردار تاریں لپٹی ہوئی ہیں، افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سنگلاخ اضلاع کے حصوں میں پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ تعمیر کا آغاز مارچ میں ہوا تھا۔

پاکستانی فوجی، سرحد کے ساتھ ساتھ بنائے گئے قلعوں میں، دوسری طرف جھاڑیوں سے اٹے گھومتے ہوئے پہاڑوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ قلعوں کے اندر، مزید فوجی باڑ پر لگائے جانے والے سی سی ٹی وی کیمروں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں جنہیں رات کے وقت شمسی توانائی سے چلنے والے بلبوں سے روشن کیا جاتا ہے۔

ایک پاکستانی فوجی، 18 اکتوبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں پکتیکا صوبہ، افغانستان کے ساتھ لگائی جانے والی نئی سرحدی باڑ پر چوکس کھڑا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی فوجی، 18 اکتوبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں پکتیکا صوبہ، افغانستان کے ساتھ لگائی جانے والی نئی سرحدی باڑ پر چوکس کھڑا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

ایک اعلی پاکستانی افسر نے جنوبی وزیرستان کے حمزہ قلعہ، انگور اڈا میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ باڑ سرحد کو کنٹرول کرنے میں "تاریخی تبدیلی" ہے۔ فوج صحافیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے، شمالی وزیرستان میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر غلام خان کے قریب کٹن آرچرڈ قلعہ بھی دکھانے کے لیے لے کر گئی۔

آفیسر نے کہا کہ ابھی تک باڑ کے ذریعے 43 کلومیٹر سرحد کو الگ کیا گیا ہے مگر اگلے سال کے آخیر تک، پوری سرحد کو کور کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا "دسمبر 2018 تک، بین الاقوامی سرحد کا کوئی ایک انچ بھی ایسا نہیں ہو گا جو کہ زیرِ نگرانی نہیں ہو گا"۔ فوج نے اس آفیسر کا نام نہ بتانے کی درخواست کی ہے۔

"جب ہم کام مکمل کر لیں گے تو انشا اللہ ہم ایک بات کے بارے میں بہت یقین سے کہہ سکیں گے کہ اس جگہ سے کوئی سرحد پار نہیں کر سکتا"۔

اسلام آباد کے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باڑ لگانا بہت اچھا قدم ہے اور اس سے عسکریت پسندوں کی سرحد پر نقل و حرکت کو روکنے میں مدد ملے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "مجھے یقین ہے کہ اس سے عسکریت پسندوں کی دونوں اطراف پر مہمات کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی اور یہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو جیتنے میں ایک بہت اچھا قدم ثابت ہو گی"۔

پشاور یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ کے چیرمین پروفیسر سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ سرحد پر باڑ بہت عرصہ پہلے لگائی جانی چاہیے تھی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "باڑ لگانے سے پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے ہی امن یقینی ہو جائے گا اور دوسرے اس سے ان دہشت گردوں کو پکڑنے میں مدد ملے گی جو مسام دار سرحد کو پار کر کے سیکورٹی آپریشنز سے فرار ہو جاتے ہیں"۔

[پشاور سے محمد آحل نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

محض یہ خواہش ہے کہ یہ دہری باڑ ہوتی۔ لیکن بہر حال یہ آغاز ہے۔ پاکستان زندہ باد

جواب