اسلام آباد - ادارہ برائے تزویراتی مطالعات (آئی ایس ایس آئی) کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق قومی حدود سے بالا حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں اضافہ کرنے میں مدد کرنے کے لیےجاپان پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
5 جون کی رپورٹ، جس عنوان ہے "پاکستان اور بین الاقوامی امداد برائے دہشت گردی کے خلاف جنگ"، اپریل 2018 سے مارچ 2019 تک چلنے کے لیے مقرر کردہ چار ایک سالہ منصوبوں کے لیے جاپانی امداد پر روشنی ڈالتی ہے۔
پاکستان میں جاپانی سفارت خانے نے 10 مئی کو اعلان کیا کہ جاپان 3.7 ملین ڈالر (427.7 ملین روپے) سے زائد رقم اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے ذریعے مہیا کر رہا ہے۔
اس رقم میں سے تقریباً 2.5 ملین ڈالر (289 ملین روپے) قومی حدود سے باہر جرائم کے خلاف لڑنے اور سرحدی دفاع کو بہتر بنانے پر خرچ کیے جائیں گے، 500،000 ڈالر (57.8 ملین روپے)دہشت گردی میں سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنےکے لیے، 300،000 ڈالر (34.6 ملین روپے) خیبرپختونخوا (کے پی) میں فارنزک تحقیقاتی صلاحیت کو بہتر بنانے، اور 385،600 ڈالر (44.6 ملین روپے) لاہور میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک ایئر کارگو کنٹرول یونٹ کے قیام کے ذریعے ہوائی کارگو کی حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔
آئی ایس ایس آئی کے ریسرچ فیلو اور رپورٹ کے مصنف، اسد اللہ خان کے مطابق، پاکستان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان تعاون ظاہر کرتا ہے کہ قوم قومی حدود سے باہر جرائم کے گروہوں کے خلاف لڑنے میں مخلص ہے، جو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے معاشی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں یو این او ڈی سی کا دفتر، یورپی یونین کے تعاون سے، پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی پروگرام پر عمل پروگرام کے ذریعے بھی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
تین سالہ تکنیکی معاونت کا منصوبہ، جو اپریل 2017 میں شروع کیا گیا تھا، کا مقصدفارنزکس کے استعمال کے ذریعے کے پی میں تحقیقات کو بہتر بنانااور دہشت گردی کے مقدمات کو موزوں طریقے سے نمٹانے میں استغاثہ کے وکلاء اور عدلیہ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔
علاقائی سلامتی کو بہتر بنانا
پشاور کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار اور سابق سیکریٹری دفاع برائے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا)، بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جاپانی امداد پاکستان میں دفاعی نظام کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی، جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں کمی کے لحاظ سے عالمی مفاد پر منتج ہو گی۔"
شاہ نے جاپان کی پاکستان کو دی جانے والی امداد کو سراہا، یہ اضافہ کرتے ہوئے کہ پاکستانی فوج کے لیےافغانستان کے ساتھ سرحد کے ساتھ باڑ لگانامشکل کام ہے، جبکہ وہ دیگر دفاعی اقدامات بھی اٹھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد بعض اوقات پاکستان میں گھس آتے ہیں اور اگر انہیں پاکستان کے دفاع میں کمزوریاں ملیں تو وہ دیگر ممالک میں نفوذ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ منشیات کی غیر قانونی نقل و حمل کی حوصلہ شکنی، دیگر منظم جرائم، اور عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے حکام کو کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں ہوائی اڈوں پر حفاظت کو بھی بہتر بنانا چاہیئے۔
شاہ نے کہا، دریں اثناء، دیگر بڑے ممالک کو چاہیئے ملک میں اور خطے میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے پاکستان کو مالی امداد دیں۔
انہوں نے کہا، مخیر ممالک کو اپنا پیسہ وہاں لگانا چاہیئے جہاں یہ سب سے زیادہ مؤثر ہو اور "پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مالی امداد دینی چاہیئے تاکہ دہشت گردی کو شکست دی جائے اور سیکیورٹی قائم کی جائے۔"
سرحدی دفاع کو بہتر بنانا
ایک دفاعی تجزیہ کار اور کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر جنرل، کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا، "ہمارے معاشی اور عسکری امداد فراہم کنندگان کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جاپانی امداد ایک بہت اہم داد رسی ہے۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "امداد کا سب سے اہم حصہ سرحدی دفاع کی سہولیات کو بہتر بنانا اور ان میں اضافہ کرنا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پہلے ہی اپنی مغربی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے لیے کام کر رہا ہے اور یہ کہ اس شعبے میں کوئی بھی مالی امداد پہلے سے انجام دیئے جا رہے کام کو تیز کرے گی۔
ایک دفاعی تجزیہ کار اور کراچی میں ایک ملٹی نیشنل بینک میں حفاظت کے ڈائریکٹر، کرنل (ر) محمد صباح الدین چودھری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی لگ بھگ نصف سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا ہے"۔
انہوں نے کہا، "1،200 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرنے کے لیے ہماری فوج کو مالی وسائل کی ضرورت ہے ۔۔۔ جو کہ عسکریت پسندی کے لیے ایک دیرپا اور بڑا دھچکا ہو گا۔"
انہوں نے کہا، "افغانستان کے ساتھ جزوی طور پر باڑ کی تنصیب اور دیگر حفاظتی اقدامات نے پہلے ہی سیکیورٹی کو بہتر بنا دیا ہے اور پاکستان میں دوبارہ امن قائم کیا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ باڑ کی مکمل تنصیب پاکستان، افغانستان اور خطے میں امن کی ضامن ہو گی۔