دہشتگردی

لالچ، نہ کہ اسلام عسکریت پسندوں کو پاکستان افغانستان سرحد پر متحرک کیے ہوئے ہے

جاوید محمود

12 دسمبر کو پاکستانی اینٹی نارکوٹکس فورس کا ایک اہلکار کوئٹہ میں جلائی جانے والی غیرقانونی منشیات کے انبار کے سامنے کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق افغانستان کی افیون کا 45 فیصد پاکستان کے راستے یورپ اور ایشیاء کی مارکیٹوں تک پہنچتا ہے۔ اپنے مقصد کے اسلامی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود، عسکریت پسند منشیات کی پیداوار کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ]بنارس خان/اے ایف پی[

12 دسمبر کو پاکستانی اینٹی نارکوٹکس فورس کا ایک اہلکار کوئٹہ میں جلائی جانے والی غیرقانونی منشیات کے انبار کے سامنے کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق افغانستان کی افیون کا 45 فیصد پاکستان کے راستے یورپ اور ایشیاء کی مارکیٹوں تک پہنچتا ہے۔ اپنے مقصد کے اسلامی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود، عسکریت پسند منشیات کی پیداوار کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ]بنارس خان/اے ایف پی[

اسلام آباد – تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان افغانستان سرحد پر فعال عسکریت پسند گروہ پیسے اور طاقت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، جو کہ ان کے اسلامی بھائی چارے کے دعوے کے خلاف ہے۔

انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی 31 جنوری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، کم از کم 21 مختلف عسکریت پسند گروہ افغانستان میں موجودگی رکھتے ہیں، جن میں بعض پاکستان میں بھی موجود ہیں۔

رپورٹ میں طالبان اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے افغان دارالحکومت میں عسکریت پسند حملوں کی حالیہ لہر کا معائنہ کرتی ہے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں قتلِ عام ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی شورش پر قابو پانا ضروری ہے۔

منشیات اور تشدد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

پشاور سے تعلق رکھنے والے وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابقہ سکیورٹی سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ "ان 21 گروہوں میں سے کچھ دولت کے لیے دونوں ملکوں میں دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں اور اس کا اسلامی نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "]آئی ایس آئی ایس[، افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) – بشمول فضل اللہ اور محسود گروپ – القاعدہ، حقانی گروپ، لشکرِ اسلام، لشکرِ طیبہ، لشکرِ جھنگوی، سپاہِ محمد، اسلامی تحریک برائے ازبکستان (آئی ایم یو)، انصار الاسلام، اسلامی جہاد تحریک اور دیگر دہشت گرد گروہ افغانستان میں کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن بشمول2014 کے آپریشن ضرب عضب نے،کئی پاکستانی دہشت گرد گروہوں کو افغانستان فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔

ان میں سے بعض صرف افغانستان میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو حدف بناتے ہیں جبکہ دیگر نے اپنی متشدد کاروائیاں پاکستان میں پھیلا دی ہیں۔

محمود شاہ نے کہا کہ اس سے قطع نظر، ان کے افعال "بنیادی طور پر دولت کے لیے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں موجود عسکریت پسند گروہ پوست کی کاشت، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ، بھتہ خوری اور اپنے مراکز میں ٹیکسوں کی بھتہ خوری سے $10 بلین ]1.1 ٹریلین روپے[ سالانہ سے زائد کما رہے ہیں۔"

'کالے دھن' کے لیے نبرد آزما عسکریت پسند

محمود شاہ نے کہا کہ افغان طالبان کالا دھن حاصل کرنے میں سب سے آگے ہیں کیونکہ وہ علاقہ زیادہ تر ان کے قبضے میں ہے جہاں افغان فورسز کی کم موجودگی ہے۔

حالیہ سالوں میں افغانستان میں پوست کی کاشت میں اضافہافغان طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے لیے آمدنی کا مرکزی ذریعہ رہا ہے۔ پوست غیرقانونی منشیات جیسا کہ افیم اور ہیروئین بنانے میں استعمال ہوتی ہے،جنہیں اسلام میں حرام سمجھا جاتا ہے۔

محمود شاہ نے کہا کہ دہشت گرد گروہ عسکریت پسند کاروائیوں، ہتھیار خریدنے، ارکان بھرتی کرتے اور مجموعی افعالی اخراجات میں مدد کے لیے ناجائز آمدنی استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں، طالبان قندھار اور ہلمند صوبہ میں فعال ہیں جبکہ داعش ننگرہار اور قندوز صوبوں میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں گروہ دولت اور اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں.

دونوں گروہ کابل میں شہری اور سرکاری تنصیباتپر حملے کر رہے ہیں.

افغانستان، پاکستان کو مل کر دہشت گردی سے جنگ کرنی چاہیئے

سیکورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے ناجائز مفادات کو برقرار رکھنے کے لئے عسکریت پسند گروہوں کی دلچسپی افغانستان اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں ہے۔

ماضی میں انٹر سروسز انٹیلیجنس کی انسداد دہشت گردی شاخ کےساتھ کام کرنے والے کرنل (ریٹائرڈ) علی رضا میر نے بتایا، "افغانستان میں کام کرنے والے تقریباً تمام دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا واحد مقصد حملے اور بم دھماکوں کی کارروائیاں عمل میں لاکر افغانستان اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنا ہے۔"

"انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا "عسکریت پسندوں کو فروخت کرنے کے لئے افغانستان میں ہتھیار باآسانی دستیاب ہیں کیونکہ بین الاقوامی اسمگلروں کے گروہوں کے پاس اس زمین بند ملک میں کہیں بھی ہتھیار فراہم کرنے کی صلاحیت ہے."

پاکستان کی جانب، حکام نے سرحدی انتظام بہتر بنایا ہے اور پاکستان- افغانستان سرحد کے حصوں پر باڑ لگائی ہے۔ انہوں نے بتایا، اس حکمت عملی نے 2017 اور 2018 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی شدت میں واضح کمی کی ہے۔

میر نے بتایا، "پاکستانی فورسز نے بھی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس تباہ کیے اور سلامتی کی صورتحال بہتر بنائی ہے۔"

حال ہی میں افغانستان میں 13 فروری کو منعقد ہونے والی علاقائی سلامتی کانفرنس کے دوران پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی قوم کی فوجی کارروائیوں کی کامیابی پر بات چیت کی۔

باجوہ نے کانفرنس کے شرکاء کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کے لئے عدم رواداری کی پالیسی اختیار کریں.

میر نے بتایا، دونوں ملکوں میں دیرپا امن کا حل تلاش کرنے کے لئے افغانستان اور پاکستان کو مل کر بیٹھنا چاہیئے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

افغان طالبان کے دوور میں افغانستان افیوم سے بالکل پاک ہوچکا تھا زرا تاریخ پے نظر ڈال لیا کرو یہ سب سی, آئ,اے اور دوسرے بیرونی ایجنسیاں مالی فواید کے لۓ کر رہے ہیں.

جواب