اسلام آباد — سرحد پار سے غیر قانونی حرکت کو کچلنے اور عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے 2019 تک پاکستان پاک-افغان سرحد کے اپنی جانب 400 سے زائد سیکیورٹی چیک پوسٹس اور قلعے تعمیر کرنے کا حدف رکھتا ہے۔
ایک سیکیورٹی تھنک ٹینک، ادارہ برائے تضویری علوم اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی 17 جولائی کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں 443 چھوٹے بڑے قلعے، خیبر پختوا (کے پی) کے ضلع مالاکنڈ میں 35 قلعے، باجوڑ میں 54 اور شمالی وزیرستان میں 55 قلعے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ساتوں ایجنسیوں کے مختلف حصّوں میں ستتر زیرِ تعمیر ہیں۔
سرحد کے پاکستان کی جانب تقریباً 205 سیکیورٹی چیک پوسٹ موجود ہیں، جبکہ افغانستان میں 133 ہیں۔
یہ سیکیورٹی چیک پوسٹس، 2,430 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن، پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد، پر باڑ لگائے جانے کے علاوہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا، ”فضائی نگرانی اور خصوصی ریڈار نظام بھی نصب کر دیے گئے ہیں۔“
رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی برسوں سے پاک-افغان سرحد پر روزانہ تقریباً 50,000 تا 60,000 افراد کی غیر نگرانی شدہ حرکت دیکھی جاتی ہے اور اس بہاؤ کا 90 فیصد پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے جون 2016 میں باضابطہ سرحد پار سے آمد و رفت کی تسہیل اور سرحد پار سے بے ضابطہ اور غیر قانونی آمدورفت پر قابو پانے کے لیے سرحدی انصرام کے نئے اقدامات کا اعلان کیا۔
ان اقدامات میں تورخم سرحدی پھاٹک پر ایک گیٹ کی تعمیر، پاکستان میں داخل ہونے والے تمام افغان شہریوں کے لیے مؤثر سفری دستاویزات کا مطالبہ، اور اپنی تعلیم کے لیے روزانہ پاکستان آنے والے افغان بچوں کے لیے ایک مخصوص شناختی کارڈ اور گیٹ شامل ہیں۔
دہشتگردی کی انسداد کے لیے سرحد کا تحفظ
اسلام آباد میں مرکز برائے تحقیق و علومِ سلامتی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”دہشتگردی کی حوصلہ شکنی کے لیے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنی تمام تر سرحد کو محفوظ بنانا ہو گا۔“
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے ان دہشتگرد عناصر کی حوصلہ شکنی ہو گی جو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے افغانستان میں چھاؤنیوں کو استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ”سرحد پر باڑ لگانا سیاسی حل نہیں؛ پاکستان اور افغانستان کو عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کی دونوں جانب عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لیے دونوں ممالک کو دہشتگردوں کے خلاف مشترکہ میکنزم تشکیل دینا چاہیئے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کو ہر وہ اقدام کرنا ہو گا جو ملک کو شدت پسندی اور عسکریت پسندی سے محفوظ رکھے۔“
انہوں نے کہا کہ 2017 کے اوائل میں پاکستان میں چند دہشتگردانہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ منصوبہ ساز، خود کش حملہ آور اور دیگر حملہ آور افغانستان سے آئے۔
انہوں نے کہا، ”حکومتِ پاکستان اور فوج نے ملک کے اندر عسکریت پسندوں کے خلاف سخت سیکیورٹی اقدامات کیے ہیں، اور اب وہ بمباروں کی دراندازی کو روکنے کے لیے سرحدی انصرام کو سخت کر رہے ہیں۔“
انہوں نے کہا، ”پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کے تحفظ کا حق رکھتا ہے، اور یہ ان عناصر کو شکست دینے کا واحد راستہ ہے جو مذہب کے نام پر خونریزی کرنا چاہتے ہیں۔“
کراچی سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) محمّد صباح الدین چودھری نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہاڑی علاقوں میں فوج تعینات کرنا نہایت مشکل ہے اور سیکیورٹی فورسز کو ان علاقوں کو محفوظ بنانے کے لیے ڈرونز اور ہیلی کاپٹرز کا استعمال کرنا ہو گا جن تک زمینی دستوں کی رسائی نہیں۔
انہوں نے کہا، ”افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ایسے متعدد تنگ، نہایت عمیق اور پیچ دار راستے ہیں، جنہیں عسکریت پسند استعمال کر سکتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ جارح دہشتگرد اکثر مقامی افراد کو اجرت دے کر انہیں دہشتگردوں اور اسلحہ کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ”پاک فوج کو یہ عنصر بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے اور عوام کو عسکریت پسندوں اور مقامی افراد کے درمیان اس قسم کے تعاون کی حوصلہ شکنی کرنے کی تنبیہ کرنی چاہیئے۔“
مزید برآں چودھری نے رائے دی کہ سرحدی گارڈز کو ”دیکھتے ہی گولی مار دینے“ کے احکامات ملنے چاہیئں۔
انہوں نے کہا، ”یہ عسکریت پسندوں کے لیے ایک بڑی حوصلہ شکنی ہو گی، اور اس سے ایسے عناصر کو ہماری سرحدوں سے دور رکھا جا سکتا ہے۔“