عراقی خواتین کے اس نیٹ ورک کی فعالیت پسند بحال ہو کرآگے بڑھنے کے لیے ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی کمیونیٹیز اور افراد کی مدد کے لیے کام کر رہی ہیں۔
85 عراقی تنظیمیں، جن پر یہ نیٹ ورک مشتمل ہے، معاشرے کے مختلف حصوں کو فلاحِ انسانی کی خدمات پیش کر رہی ہیں، لیکن ان کا ارتکاز داخلی طور پر بے گھر خواتین اور تشدد کے برے اثرات سے متاثرہ افراد پر ہے۔
پی اے او عہدیدار ہانا حمود نے کہا کہ پبلک ایڈ آرگنائزیشن (پی اے او)، جو اس نیٹ ورک کا جزُ ہے، ”ظلم کا شکار خواتین کے لیے بہتر اندازِ زندگی تلاش کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں، جو ان کے خاندانوں اور کمیونیٹیز پر مثبت طور پر اثرانداز ہو گا۔“
انہوں نے دیارونہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی اے او کے معاشی عطائے اختیار کے منصوبے کے جزُ کے طور پر یہ تنظیم روزانہ کی بنیادوں پر ان خواتین تک پہنچتی ہے جو اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکی ہیں یا دہشتگردی سے متاثرہ ہیں۔
انہوں نے کہا، ”ہم انہیں معاونت، مشاورت اور ان کے چھوٹے کاروباروں کے لیے مستحکم منصوبہ بندی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ کامیاب ہو سکیں۔ ان خواتین کی کامیابی اور منافع حاصل کرنے میں ہمارا کردار ہے اور ہمیں ان پر نہایت فخر ہے۔“
حمود نے کہا کہ حکومت اور شہری اداروں کو خواتین سمیت تمام عوام کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تاکہ دہشتگردی کی آفت سے بحال ہوتے ہوئے شہروں کی تعمیرِ نو کے لیے ان کی مکمل استعداد سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ”ہمیں تعاون اور پرامن طور پر مل جل کر رہنے کی روح کو پھیلانا چاہیئے اور نفرت اور بدلہ کو بھڑکانے والی کسی بھی شئے سے لاتعلق ہونا چاہیئے۔“
متاثرین کے لیے نفسیاتی معاونت
ویمن فار پیس کی سربراہ شاتھا ناجی نے دیارونا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد نے عراقی خواتین پر تباہ کن اثرات چھوڑے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم دہشتگردی کی خواتین متاثرین کے نفسیاتی صدمہ سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی کہانیوں کو دستاویزی شکل دیتی ہے۔
انہوں نے کہا، ”ہم نے اپنے پراجیکٹ کے جزُ کے طور پر آئی ایس آئی ایل سے متاثرہ خواتین کی 22 کہانیوں کو دستاویزی شکل دی۔“
انہوں نے کہا کہ ایک کتاب کی صورت میں تالیف کی گئی یہ کہانیاں ”ہزاروں معصوم افراد کو متاثر کرنے والے جرائم اور خلاف ورزیوں“ کا ایک مختصر نمونہ فراہم کرتی ہیں۔
ناجی نے کہا کہ آئی ایس آئی ایل کے موصل پر چڑھائی کرنے کے کچھ ہی بعد ویمن فار پیس نے وزارتِ محنت اور عراقی خواتین کے نیٹ ورک میں دیگر تنظیموں کی شراکت سے نفسیاتی معاونت کی ایک مہم کا آغاز کیا۔
تب سے اب تک ملک بھر میں 35 مراکز کھولے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد تشدد سے متاثرہ خواتین کی خوداعتمادی کو بحال کرنے میں مدد کے لیے ان کی آواز سننا ہے تاکہ وہ آگے بڑھ کر اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مرکز نے نہ صرف سینکڑوں خواتین کا علاج کر کے ان کی مدد کی ہے، بلکہ نفسیاتی بحران سے نمٹنے کے طریقوں پر دوسروں کو تعلیم و تربیت بھی دی ہے۔
مستقبل کی تشکیل کے لیے خواتین کو تحریک
عراقی العمل ایسوسی ایشن کی صدر حانا ایدوار نے کہا کہ ملک کا مستقبل تشکیل دینے میں خواتین کو ایک فعال کردار ادا کرنا چاہیئے۔
انہوں نے دیارونا سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم خواتین کے اپنے خاندان اور کمیونیٹی کے ماحول میں ایک قابل رہنما بننے میں مدد کے لیے کام کر رہے ہیں۔“
ایدوار نے کہا کہ اس تنظیم نے خواتین قیادت کو ابھارنے کے لیے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا ہے، اور چند ایسی شرکاء ہیں جو فی الحقیقت نمایاں ہیں۔
انہوں نے کہا، ”مثال کے طور پر ہمارے یہاں صوبہ کرکک میں درجنوں ایسی خواتین ہیں جنہیں شہر کی میئر یا کمیونیٹی سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے اور وہ اپنی کمیونیٹیز کی قیادت اور خدمت کرنے میں فعال طور پر حصّہ لے رہی ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا، دیگر خواتین ”امن کی ایک تہذیب کو فروغ دینے اور شدّت پسندانہ نظریہ سے لڑنے“ میں فعال انداز سے مشغول ہیں۔
ایدوار نے کہا کہ نیٹ ورک میں دیگر تنظیمیں گھریلو تشدد اور بچپن کی شادیوں جیسی معاشرتی برائیوں کے خطرات سے متعلق بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے کی مجموعی کاوشوں سے ہی ایسے مسائل کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔
خواتین قائدانہ عہدوں پر
عراقی آئین کے مطابق 25 فیصد پارلیمانی نشستیں خواتین کے لیے ہیں۔
خواتین کی پارلیمانی کمیٹی میں خدمات سرانجام دینے والی عراقی رکنِ پارلیمان انتصار الجبوری نے کہا، ”غیرمعمولی امر یہ ہے کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں 20 خواتین ارکانِ پارلیمان نے مختص کوٹہ کے علاوہ نشستیں جیتیں، جو خواتین کے کردار اور معاشرتی پختگی پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا ثبوت ہے۔“
انہوں نے مزید کہا، ”خواتین ارکانِ پارلیمان نے آئین سازی کرنے اور بدعنوانی کو منظرِ عام پر لانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا جو کہ دہشتگردی کا ایک دوسرا چہرہ ہے۔“
الجبوری نے کہا کہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر آئی ایس آئی ایل کے جرائم سے پردہ ہٹانے اور اس کے متاثرین کی معاونت کے لیے اپنے ہم منصبوں اور خواتین شہری فعالیت پسندوں کے ساتھ ایگزیکٹیو برانچ میں بھی کام کیا۔
پارلیمان میں صوبہ نینوا کی نمائندگی کرنے والی الجبوری نے موصل کی آزادی کی جنگ کے لیے خواتین کی معاونت کا بھی حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ 17 اکتوبر کو موصل کی آزادی کے لیے شروع ہونے والے ایک عسکری آپریشن کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہری امن کی معاونت کرنے کے ایک اقدام کے آغاز کے لیے نینوا سے ارکانِ پارلیمان اور عراقی خواتین کے نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کا کیا۔
انہوں نے کہا، اس اقدام میں ”آئی ایس آئی ایس ایل کے جرائم کے اثرات کو زائل کرنے، مرتکبین کے خلاف قانونی کاروائی اور متاثرین کی تلافی کی جانب متعدد عملی اقدامات کو اختیار کر کے معاشرتی استحکام کی بحالی کے لیے ایک خاکہ“ شامل ہے۔
انہوں نے کہا، ”ہم اپنے ملک کے سامنے ایک بہتر راستے کی نقشہ کشی کرنے کے لیے ملک کر کام کرنے کی امّید کرتے ہیں۔“