سفارتکاری

پاکستان، افغانستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کوششوں کو تیز کر دیا

عدیل سید

افغان بارڈر پولیس کے افسران 17 فروری کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سہیون، پاکستان میں صوفی مزار پر خودکش دھماکے کے بعد، جس میں اسی افراد ہلاک اور دو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، پاکستان کے حکام نے نامعلوم مدت کے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان مرکزی بارڈر کراسنگ کو بند کر دیا۔ ]نوراللہ شیرزادہ /اے ایف پی[

افغان بارڈر پولیس کے افسران 17 فروری کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سہیون، پاکستان میں صوفی مزار پر خودکش دھماکے کے بعد، جس میں اسی افراد ہلاک اور دو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، پاکستان کے حکام نے نامعلوم مدت کے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان مرکزی بارڈر کراسنگ کو بند کر دیا۔ ]نوراللہ شیرزادہ /اے ایف پی[

پشاور - پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے دونوں طرف کے حکام نے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں حالیہ اضافے کے بعد، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 20 فروری کو کہا کہ پاکستان نے پاکستان کی طرف سے سرحدی سیکورٹی کو بڑھانے کے اقدامات کا مقصد مشترکہ دشمن سے جنگ کرنا ہے -- "ہر رنگ و نسل کے دہشت گرد"۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے بیان کے مطابق، باجوہ نے راولپنڈی میں ایک اونچی سطح کی سیکورٹی میٹنگ میں کہا کہ "پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور مل کر ان کوششوں کو جاری رکھیں گے"۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ باجوہ نے "دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کو روکنے جس میں تمام اقسام کی غیر قانونی نقل و حرکت شامل ہے، کے لیے افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مزید موثر سرحدی ہم آہنگی اور تعاون قائم کرنے کا حکم دیا"۔

نو فروری کو پاکستانی مزدور سامان سے لدے اپنے چھکڑوں کو خیبر ایجنسی، پاکستان میں افغانستان کے ساتھ سرحد پر، طورخم کی بارڈر کراسنگ پر کھینچ رہے ہیں۔ ]عبدل مجید /اے ایف پی[

نو فروری کو پاکستانی مزدور سامان سے لدے اپنے چھکڑوں کو خیبر ایجنسی، پاکستان میں افغانستان کے ساتھ سرحد پر، طورخم کی بارڈر کراسنگ پر کھینچ رہے ہیں۔ ]عبدل مجید /اے ایف پی[

اس کے علاوہ، انہوں نے "افغان حکام کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف نتیجہ خیز کوششوں کے لیے باہمی ہم آہنگی کی حالیہ تجویز کو خوش آمدید کہا ہے"۔

یہ میٹنگ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں حالیہ اضافے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ کو عارضی طور پر بند کیے جانے کے بعد منعقد ہوئی ہے۔

تعاون کی طرف مثبت اقدامات

دریں اثناء دونوں اطراف کے سفارت کاروں نے "مثبت" مذاکرات کیے۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے 20 فروری کو سوشل میڈیا کے ذریعہ کہا کہ "میری سرتاج عزیز جو کہ پاکستانی وزیراعظم کے امورِ خارجہ کے مشیر ہیں، سے بہت مثبت ملاقات ہوئی ہے اور آج کابل سے واپسی کے بعد جنرل ہیڈکواٹرز سے بہت تعمیری بات چیت ہوئی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس کے نتیجہ میں حالیہ کشیدگی میں فوری کمی اور ایک دوسرے کے خدشات اور شکایات پر ردعمل کے اظہار کر لیے باہمی تعاون کے انداز میں زیادہ مثبت ماحول پیدا کرنے کی توقع کرتا ہوں۔ ہم نے آگے بڑھنے کے راستے پر عارضی طور پر اتفاق کر لیا ہے"۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ملاقات اور اس کے نتائج کی تصدیق کی۔

دی نیشن کے مطابق، انہوں نے کہا کہ "دونوں اطراف مثبت رہی ہیں۔ امن کو یقینی بنانے کے لیے کوششوں میں باہمی اتفاق موجود ہے"۔

افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

افغان حکومت "پاکستان کی حکومت کے ساتھ فہرستوں اور دونوں اطراف کے خدشات پر بات چیت اور ذمہ درانہ مشترکہ اقدامات اٹھانے کی خواہش رکھتی ہے خصوصی طور پر کواڈریلیٹرل کوآپریشن گروپ کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے"۔ یہ بات وزارت کے ترجمان احمد شکیب مستغانی نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد

پاک افغان پیپلز فورم کے ترجمان نثار احمد خان نے کہا کہ "یہ پاکستان کی اعلی فوجی قیادت کی طرف سے بہت مثبت بیان ہے کہ دونوں ملک اپنے مشترکہ دشمن سے مل کر لڑیں گے جیسے کہ دہشت گرد"۔

انہوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں اطراف کی آبادی نے دہشت گردی سے بہت زیادہ مصائب اٹھائے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں حکومتیں مل کر بیٹھیں تاکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں موجود کسی بھی غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حکومتوں اور پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان اتحاد کے بغیر، ہمارے مشترکہ دشمن کو شکست نہیں دی جا سکتی اور ہم اس آفت سے مزید نقصان اٹھائیں گے جس نے پہلے ہی ہزاروں قیمتی جانوں کو نگل لیا ہے"۔

نثار نے کہا کہ "اگر پاکستان کے لوگ بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے ہلاک ہو رہے ہیں تو افغان بھی محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی تشدد اور انتہاپسندی کا شکار ہو رہے ہیں"۔

ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر،لطف الرحمان جو کہ پی ایچ ڈی کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد، ڈیورنڈ لائن پر تحقیق کر رہے ہیں نے کہا کہ "پاکستان کے آرمی چیف کی طرف سے بیان بہت خوش آئںد ہے اور یہ افغانستان کی طرف سے مناسب جواب کا متقاضی ہے"۔

انہوں نے دونوں ممالک کی سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ تعاون کو مظبوط کریں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "افغان حکومت کو پاکستان کے آرمی چیف کی طرف سے دیے جانے والے مثبت اشارے کا جواب دینا چاہیے اور دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں پناہ حاصل کرنے والے دہشت گردوں کو نکالنے کے لیے ہم آہنگ طریقے سے کام کرنا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو ایک جیسے مسائل کا ہی سامنا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے"۔

آپریشن ضربِ عضب پر تعمیر

پروفیسر اے زیڈ ہلالی جو کہ پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے شعبہ کے چیرمین ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ غلط فہمیوں کو ختم کرنے کا وقت ہے ۔۔۔ایک واحد پلیٹ فارم پر مل کر بیٹھنے سے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کا"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تعاون کے بغیر، ہم دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کو تعاون بڑھانا ہو گا کیونکہ پاکستان نے دہشت گردوں کو جاری فوجی مہمات کے باعث اپنی زمین سے نکال باہر کیا ہے"۔

فوج نے ضربِ عضب کا آغاز جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں کیا تھا۔

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، پاکستان کے لیے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے کہا کہ "دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے اور اسے کسی بھی ملک کے انفرادی اقدامات کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب اسے دہشت گردوں کے باقی ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے افغانستان کی مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے دہشت گردوں کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے اور آپریشن ضربِ عضب نے بہت مثبت اور حوصلہ افزاء نتائج دکھائے ہیں"۔

شاہ نے کہا کہ جیسے کہ باجوہ نے واضح طور پر کہا کہ "باہمی تعاون اور مدد کے بغیر ہم تشدد کی مسلسل جاری لہر کو قابو کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے"۔

یَک پہلُویت حل نہیں ہے

پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے افغان طلباء کے سرگرم کارکن خالد امیری نے کہا کہ "دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے قانون سازوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے"۔

انہوں نے افغان حکومت پر زور دیتے ہوئے کہ وہ باجوہ کے جذبات کا ویسا ہی جواب دے، پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یَک پہلُویت کی کوششیں دہشت گردی سے نپٹنے کا مناسب طریقہ نہیں ہیں"۔

پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر وائس پریزیڈنٹ ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ "اگر دہشت گردی کے خاتمے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی اہمیت کا ادراک نہ کیا تو یہ وباء زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور زندگیوں اور املاک کو تباہ و برباد کرنا جاری رکھے گی"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ دہشت گردی سے جنگ کرنے والے دو ممالک کے درمیان جنگ کبھی بھی حل نہیں رہا ہے۔ انہوں نے اس کی بجائے تعاون اور مشترکہ مدد کی تجویز پیش کی۔

دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سرحدی سیکورٹی میں اضافے کے ساتھ ساتھ، ضیاء نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو دوبارہ سے شروع کرنے کی تجویز پیش کی جو کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان جانے کے راستوں کو عارضی طور پر بند کرنے کی وجہ سے رک گئی ہے۔

ضیاء نے کہا کہ ہزاروں کنٹینر پاکستان کی بندر گاہوں اور سرحدی چوکیوں پر انتظار میں پڑے ہیں جس سے دونوں ممالک کے کاروباروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر ہم تجارت کو دوبارہ سے شروع کر دیں تو نہ صرف یہ اعتماد کو قائم کرنے کے قدم کے طور پر کام کرے گی بلکہ حکومتوں کے درمیان اور لوگوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500