پشاور -- پاکستان اور افغانستان دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔
پاکستان سے ایک اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد نے 29 اپریل تا 1 مئی کابل میں افغان حکام سے ملاقاتیں کیں، جن سے مبصرین میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ فریقین تعاون میں ایک نیا باب کھول رہے ہیں۔
پاکستان میں افغان سفیر عمر زخیلوال نے کہا کہ وفد کا مقصد "ایسے امور پر بات کرنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بے اعتمادی/فاصلوں کا سبب بنے ہیں"۔
انہوں نے 29 اپریل کو بذریعہ ٹوئٹر کہا کہ بات چیت "ہماری شکایات اور احساست کے مطابق دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کا راستہ تلاش کرنے کے مقصد سے" آگے بڑھے گی۔
خوشگوار تعلقات کی بحالی
17 رکنی پاکستانی وفد، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل تھا، کی قیادت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی۔
کابل سے واپسی پر، پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء، ایاز صادق نے 1 مئی کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا، "دورہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ایک دعوت کے جواب میں کیا گیا تھا، اور اس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور تمام تشویشوں پر بات چیت کرنا تھا۔"
دورے کو "بہت کامیاب" بتاتے ہوئے اور اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ "پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کا ایک نیا باب رقم کرے گا" انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت نے یک زبان ہو کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بامعنی شراکت داری قائم کرنے کی بات کی۔
صادق نے کہا، "ہم نے اپنے افغان بھائیوں کو بتایا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کو فروغ دینا چاہتا ہے اور یہ اس مقصد کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔"
غلط فہمیاں ختم کرنا
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن غلام احمد بلور وفد کا حصہ تھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دورہ ۔۔۔ بہت ضروری تھا اور ان غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوا جو سرحدی انتظام کے امور پر دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہو گئی تھیں۔"
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں نے کھل کر بات کی۔
غنی کے ساتھ وفد کی ملاقات تقریباً چھ گھنٹے چلی، کا اضافہ کرتے ہوئے، بلور نے کہا، "افغان حکام نے سلامتی سے متعلقہ امور پر اپنی تشویشیں بتائیں، اور ہم نے اپنی شکایات کیں۔"
انہوں نے کہا، "بات چیت بہت نتیجہ خیز تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات پر توجہ مرکوز رہی۔ بات چیت کا "پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور تعاون بہتر کرنے پر بہت دیرپا اثر" ہو گا۔
انہوں نے کہا، "ہر مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، اور اگر ہم روبرو بات چیت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں، تو ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہو گی۔"
ایک نیا دور
یونیورسٹی آف پشاور میں شعبۂ پولیٹیکل سائنس کے چیئرمین، پروفیسر اے زیڈ ہلالی نے کہا کہ دورہ ایک مثبت اقدام ہے اور "دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا نقیب ہے۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ وفد کے چند ارکان کے "اپنے افغان ہم منصبوں کے ساتھ بہت دوستانہ اور پُرتپاک تعلقات تھے۔"
انہوں نے کہا، "ان سیاستدانوں نے افغان حکام کے ساتھ بہت کھلی بات چیت کی اور خطے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کی اہمیت کے متعلق اچھی طرح آگاہ کیا۔"
ہلالی نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ پارلیمانی وفد کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن اور دوستی کا راستہ بھی کھولے گا۔
ہاٹ لائن دفاع میں معاون ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دو طرفہ تعلقات اپریل کے اوائل میں بہتر ہونا شروع ہوئے تھے جب دونوں فریقوں نے سرحدی دفاع میں مدد کے لیے ایک عسکری ہاٹ لائن قائم کی تھی۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا کہ پاکستانی اور افغان حکام نے 4 اپریل کو پہلی بار وقف شدہ لائن پر بات چیت کی تھی، جس میں سرحد کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستانی لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض اور افغان لیفٹیننٹ جنرل داؤد شاہ وفادار نے ہاٹ لائن کے قیام پر اظہارِ اطمینان کیا اور مزید ایسی بات چیت کرنے کا عہد کیا۔
وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری دفاع، پشاور کے بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ ہاٹ لائن "مشترکہ تشویشوں کے امور پر اختلافات کو ختم کرنے کا ایک نظام ہے۔"
شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "افغان فوج کا عملی تجربہ اپنے [پاکستانی] ہم منصب کی نسبت بہت کم ہے، اور ابھرنے والے مسائل کے حل کے لیے ایک محفوظ اور تیز رفتار طریقے سے حکمتِ عملیاں ترتیب دینا دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے قابل بنائے گا۔"
انہوں نے کہا کہ ایک کھلی بات چیت کا رابطہ دونوں ممالک کو حفاظت، بقاء اور قیامِ امن کے سنجیدہ مسائل حل کرنے کی ترغیب دے گا۔
دونوں فریقوں کو لازماً مخلص اور شفاف ہونا چاہیئے، کا اضافہ کرتے ہوئے شاہ نے کہا، "یہ کوششیں اچھے تعلقات کے امکانات میں اضافہ کرتے ہوئے، باہمی تعاون کے اثرات پیدا کر سکتی ہیں۔"
دیرپا امن کا قیام
پشاور کے مقامی، ایک دفاعی تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں، جس کو سراہا جانا چاہیئے اور یہ ایک اچھا شگون بھی ہے کیونکہ اس سے ۔۔۔ خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کا راستہ کھلے گا۔"
انہوں نے کہا کہ دو ممالک، جن کے مفادات جغرافیائی قربت کے سبب مشترکہ ہیں، ان پیش رفتوں کے بعد تعاون کرنے کی بہتر حالت میں ہوں گے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ "وہ پشتون رہنماء جو سرحد کے دونوں جانب احترام کیے جانے کے دعویدار ہیں انہیں تعلقات کو بہتر بنانے اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔"
انہوں نے کہا، "تعلقات میں بہتری ہمسایہ ممالک کو قریب تر لائے گی اور اپنے تنازعات کو حل کرنے میں ان کی مدد کرے گی، [جو] رابطے کی کمی اور بے اعتمادی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔"
کھلی سرحدیں
پاکستانی حکام نے حال ہی میں، خیبر ایجنسی میں طورخم سرحدی مقام اور بلوچستان میں چمن کے سرحدی مقام کو دوبارہ کھولنے کے بعد، جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ بارڈر کراسنگ کو کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
پشاور کے کسٹمز کے کنٹرولر قربان علی نے 20 اپریل کو ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کو بتایا کہ انگور اڈہ اب کھلا ہے۔
پاکستان-افغانستان مشترکہ ایوانِ صنعت و تجارت کے سینیئر نائب صدر، ضیاء الحق سرحدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہر ملک ۔۔۔ بلا واسطہ یا بالواسطہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں، تجارتی شراکت دار " اپنی معاشی حالت کو مضبوط بنانے کے مشترکہ مقصد کے ساتھ ۔۔۔ متواتر کوششیں کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد بند تھی، دونوں حکومتوں اور نجی شراکت داروں کا "اربوں روپے کا نقصان ہوا۔"
سرحدی نے سرحد کے دوبارہ کھلنے اور وقف شدہ ہاٹ لائن کے قیام کو سراہا۔
انہوں نے کہا، "دونوں ممالک کے حکام کے درمیان براہِ راست بات چیت کے ربط کے قیام سے نہ صرف چھوٹے موٹے معاملات بروقت حل ہونے میں مدد ملے گی بلکہ دونوں ممالک کے لوگوں میں اعتماد بھی پیدا ہو گا جن کا خطہ، ثقافت اور روایات مشترکہ ہیں۔"