سفارتکاری

حکام اور شہریوں کی طرف سے افغان-پاکستان سرحد دوبارہ سے کھولنے کو خوش آمدید کہا گیا

عدیل سید

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے سرحد کو کھولے جانے کے ایک دن کے بعد، منگل (21 مارچ) کو طورخم بارڈر کراسنگ پر گاڑیوں پر سوار افراد افغانستان میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے سرحد کو کھولے جانے کے ایک دن کے بعد، منگل (21 مارچ) کو طورخم بارڈر کراسنگ پر گاڑیوں پر سوار افراد افغانستان میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

پشاور -- پاکستانی اور افغان شہری اپنے ملکوں کی مشترکہ سرحد کو کھولے جانے کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں جسے ایک ماہ پہلے سیکورٹی کی وجوہات کی بنیاد پر بند کر دیا گیا تھا۔

نوازشریف نے پیر (20 مارچ) کو طورخم اور چمن کراسنگ کو کھولنے کا حکم دیا جس پر "فوری عمل درآمد" ہو گا۔

دہشت گردانہ حملوں کی ایک لہر کے بعد، جس میں صوبہ سندھ میں ایک صوفی مزار پر خودکش حملہ بھی شامل ہے جس میں ستر سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے، یہ سرحد 16 فروری سے بند ہے ماسوائے واحد دو روزہ وقفے (7 اور 8 مارچ) کے، جب اسے کھولا گیا تھا۔

نوازشریف نے کہا کہ سرحد کو دوبارہ سے کھولا جانا "خیرسگالی کیا اظہار" ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان سیکورٹی کے ان خدشات کو حل کرنے کے لیے "ضروری اقدامات" کرے گا جن کی وجہ سے سرحد کو بند کیا گیا تھا۔

نوازشریف نے ایک بیان میں کہا کہ "افغانستان میں پائیدار امن علاقے میں امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے"۔

خوش آئند خبر

دونوں ملکوں کے معززین اور عام شہریوں نے انسانی بنیادوں اور اقتصادی نتائج دونوں کے لیے سرحد کو دوبارہ کھولے جانے کو خوش آمدید کہا، اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ صرف طورخم پر ہی سینکڑوں گاڑیاں اور افراد پھنسے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے سرحد کے بند ہو جانے کے باعث ہونے والے معاشی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا مگر اس امید کا اظہار بھی کیا کہ نیا شمسی سال پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری لے کر آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ "میں امید کرتا ہوں کہ نیا سال علاقے میں امن لائے گا خصوصی طور پر افغانستان اور پاکستان میں"۔

ڈیلی ٹائمز کے مطابق، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو اپنے تعلقات کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جن سے دونوں اطراف کو تجارت اور امن کی صورت میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

زخیلوال نے سرحد کے دوبارہ کھولے جانے کی تعریف کی اور کہا کہ دونوں اطراف کے لوگوں اور تاجروں کو حکومتوں کے اقدامات کے باعث مشکلات کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

پاکستان - افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ضیاء الحق نے دونوں ممالک کے کاروباروں کو ہونے والے نقصانات کو "انتہائی زیادہ" قرار دیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ فرنٹئر کے ساتھ ہی روکے جانے والے سامان پر مختلف جرمانوں کی لاگت 2.5 بلین روپے سے 3 بلین روپے ( 25 ملین سے 30 ملین ڈالر) تک ہو سکتی ہے۔

انہوں نے پاکستان کی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہ وہ بہت سے جرمانوں کو معاف کر دے، کہا کہ "افغانستان جانے والے تقریبا 2,000 کارگو کنٹینر پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں"۔

آل پاکستان زرعی پیداوار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک سوہنی نے کہا کہ افغانستان جانے والے تقریبا سات سو سے آٹھ سو ٹرک جن میں خراب ہونے والی اشیاء موجود ہیں، طورخم اور چمن کی کراسنگ پر پھنسے ہوئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کاروباری افراد کو ملکی سیکورٹی کی اہمیت کا مکمل احساس ہے مگر ایسے اقدامات کو اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کیے بغیر اٹھانا چاہیے"۔

مستقبل کے لیے امیدیں

مشاہدین کو امید ہے کہ سرحد کو دوبارہ کھولے جانے سے ہمسایہ ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہموار ہو گی۔

افغان مہاجرین کی متحدہ سپریم کونسل کی خیبرپختونخواہ (کے پی) شاخ کے صدر بیراعلی میانخیل نے کہا کہ طورخم کی کراسنگ کو "دوستی کا دروازہ" تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سرحد کے آر پار نقل و حرکت کی بحالی سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی اور گرم جوشی کے دوبارہ سے بحال ہونے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔

تیس سالوں سے پشاور میں رہنے والے افغانستان کے شہری محمد خالص نے کہا کہ "افغان شہری پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اگرچہ کہ ہم یہاں پر مہاجر ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سرحد کے دوبارہ کھلنے سے "پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود غلط فہمی کو دور کرنے اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد ملے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہت اچھے

جواب