سلامتی

پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کے پندرہ سال

جاوید محمود

پاکستانی فوج کے سربراہ جرنل راحیل شریف سات نومبر کو لاہور کے قریب ایک فیلڈ ایریا کا دورہ کر رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے فیلڈ میں فوجیوں سے ملاقات کی اور ان کی تربیت، جنگی قابلیت اور حوصلوں کی تعریف کی۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

پاکستانی فوج کے سربراہ جرنل راحیل شریف سات نومبر کو لاہور کے قریب ایک فیلڈ ایریا کا دورہ کر رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے فیلڈ میں فوجیوں سے ملاقات کی اور ان کی تربیت، جنگی قابلیت اور حوصلوں کی تعریف کی۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

اسلام آباد - پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق، گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اٹھائیس ہزار سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

پی آئی سی ایس ایس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں عسکری حملوں میں ایک قابل ذکر کمی سامنے آئی ہے خصوصی طور پر گزشتہ دو سالوں کے دوران جب جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہ مہم ابھی بھی شمالی وزیرستان میں جاری ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کی صورت حال اس حد تک بہتر ہو گئی ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کی اوسط ماہانہ 161 سے کم ہو کر45 ہو گئی ہے۔

پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، بدلتے حالات سے عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور پاکستان بھر میں سیکورٹی کی صورت حال میں قابل قدر بہتری آئی ہے خصوصی طور پر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور خیبرپختونخواہ (کے پی) میں۔

انسدادِ دہشت گردی کی کامیاب مہمات

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستانی فوج نے کے پی اور وزیرستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ پندرہ سال کے دوران بہت سی مہمات سر انجام دی ہیں جس سے عسکریت پسندوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے پہلے سوات اور مالاکنڈ میں عسکریت پسندوں کے خلاف مہمات سر انجام دیں اور پھر اس آپریشن کو خیبر ایجنسی تک بڑھا دیا۔

انہوں نے کہا کہ "آپریشن ضربِ عضب کامیاب ترین عسکری آپریشن ہے جس نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے، کے پی اور شمالی وزیرستان میں بنیادی ڈھانچے، نیٹ ورکس، تربیتی کیمپوں اور بم بنانے کے مراکز کو تباہ کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں اور عسکریت پسندوں کی طرف سے اغوا برائے تاوان میں 2016 میں کمی صرف آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے ہی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے، دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورکس اور بڑے حملوں سے تعلقات وزیرستان اور خصوصی طور پر شمالی وزیرستان میں پائے گئے تھے جہاں دہشت گرد گروہوں نے اپنے ٹھکانے اور نو گو ایریاز کو بنا لیا تھا۔

شاہ نے کہا کہ "ضربِ عضب کے بعد، دہشت گرد گروہوں کے راہنما افغانستان منتقل ہو گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند جنہوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر دسمبر 2014 میں، اگست میں کوئٹہ سول ہسپتال اور اکتوبر میں بلوچستان پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کیے، انہیں افغانستان میں موجود اپنے راہنماؤں سے ہدایات ملی تھیں جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ انتہائی کٹر دہشت گرد افغانستان چلے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر سیکورٹی اور اور سخت کرنا چاہیے اور ان عسکریت پسند گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہیں جو ٹی ٹی پی یا "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کی حمایت کر رہے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ آرمی چیف جرنل راحیل سریف انتیس نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قیادت میں متوقع تبدیلی سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہو گی۔

ہمہ جہتی طریقہ کار

پی آئی سی ایس ایس کے مینجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا کہ عسکریت پسندی کا خاتمہ صرف فوجی قوت سے نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سخت قوت استعمال کرنے کی یک جہتی پالیسی کبھی بھی دیرپا اثرات پیدا نہیں کر سکتی۔ تمام فاٹا سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے بعد، حکومت ایک مضبوط پوزیشن رکھتی ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے لیے سیاسی راستے کھولے جو مفاہمت چاہتے ہیں اور تشدد کو ترک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو نظریاتی محاذ پر انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سے جنگ کرنے کے لیے لازمی طور پر ایک جامع قومی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "بلوچستان عسکریت پسندوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے اور صوبے کے پاس اوپر سے لے کر نیچے تک بہترین پولیس فارس ہونی چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سیکورٹی کی تنظیموں کو عسکریت پسندوں کی مبینہ پناہ گاہوں کی شناخت کرنی چاہیے اور دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنانے کے لیے سیکورٹی کو سخت کرنا چاہیے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر امتیاز خان فران نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فاٹا اور کے پیکے بعد، کراچی جو کہ پاکستان کا مالیاتی دارالحکومت ہے، ماضی میں دہشت گردی کا بڑا شکار رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "پانچ ستمبر 2013 کو کراچی میں شروع کیے جانے والے سیکورٹی آپریشن کے بعد نہ صرف شہر میں امن بحال ہوا ہے بلکہ طالبان اور دوسری عسکریت پسند جماعتوں کے ٹھکانوں اور نو گو ایریاز کا خاتمہ بھی ہوا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پیرا-ملٹری رینجرز، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے عزم نے کراچی کو دہشت گردی سے محفوظ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے 2016 میں شہر میں کسی واحد بڑے دہشت گردانہ حملے کی بھی اطلاع نہیں دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "صوبائی حکومت اور سیکورٹی کی تنظیموں کو ان مذہبی اور نسلی جماعتوں کی طرف بالکل صفر برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو کراچی کے امن کے لیے خطرہ ہیں اور مستقبل میں شہر میں دوبارہ سے دہشت گردی شروع کر سکتی ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اَلحَمْدُ لِله گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران پاکستان میں اٹھائیس ہزار سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے جس سے عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی اور سیکورٹی میں بہتری آئی ہے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں کی اوسط ماہانہ 161 سے کم ہو کر45 ہو گئی ہے۔ انتہائی کٹر دہشت گرد افغانستان چلے جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ فاٹا اور کے پیکے بعد، کراچی جو کہ پاکستان کا مالیاتی دارالحکومت ہے، ماضی میں دہشت گردی کا بڑا شکار رہا ہے پیرا-ملٹری رینجرز، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے عزم نے کراچی کو دہشت گردی سے محفوظ بنایا ہے۔ حکومت کو نظریاتی محاذ پر انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سے جنگ کرنے کے لیے لازمی طور پر ایک جامع قومی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔

جواب