سلامتی

مبصرین نے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں پاکستانی فضائیہ کے کردار کو سراہا

جاوید محمود

شمالی وزیرستان میں ایک عسکری آپریشن سے بھاگنے والے پاکستانی شہری، 22 جون 2014 کو سیدگئی میں ایک فوجی چیک پوسٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں فضائیہ نے اہم کرادر ادا کیا ہے۔ ]اے ایف پی/ اے مجید[

شمالی وزیرستان میں ایک عسکری آپریشن سے بھاگنے والے پاکستانی شہری، 22 جون 2014 کو سیدگئی میں ایک فوجی چیک پوسٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں فضائیہ نے اہم کرادر ادا کیا ہے۔ ]اے ایف پی/ اے مجید[

اسلام آباد - مشاہدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائیہ (پی اے ایف) نے گزشتہ دو سالوں کے دوران عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

پی اے ایف نے آپریشن ضربِ عضب میں سرگرم کردار ادا کیا اور ان نمایاں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں میں پناہ لے رکھی تھی اور جہاں براہ راست زمینی آپریشن کرنا مشکل تھا۔

فوج نے کئی سالوں تک عمومی طور پر شمالی وزیرستان سے دور رہنے کے بعد، جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا۔

سینٹر برائے تحقیق و سیکورٹی اسٹڈی (سی آر ایس ایس) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "گزشتہ دو سالوں میں، پی اے ایف نے 1,327 فضائی حملے کیے اور بہت سے عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کی پناہ گاہوں اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کے تباہ کر دیا"۔

سی آر ایس ایس کی سالانہ سیکورٹی رپورٹ 2016 کے مطابق، پی اے ایف نے 2015 میں عسکریت پسندوں کے خلاف 1,094 اور 2016 میں 233 فضائی حملے کیے۔

گل نے کہا کہ "عسکریت پسندوں کے خلاف 2016 میں حملوں کی تعداد کم ہو گئی کیونکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 2015 کے دوران فضائی اور زمینی آپریشنز کے باعث طالبان، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی پناہ گاہیں، نیٹ ورکس اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا"۔

انہوں نے کہا کہ "پی اے ایف کے جنگی جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں نے خیبر ایجنسی، شمالی وزیرستان اور شوال میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر بمباری کی"۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے آغاز کے بعد عسکریت پسند وزیرستان سے فرار ہو کر شوال چلے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیکن، پاک فضائیہ کے فضائی حملوں اور فوج کے زمینی آپریشن نے شوال میں زیادہ تر عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے، جبکہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکرِ اسلام (ایل آئی) اور القاعدہ کے چند رہنما افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسندوں کے خلاف پی اے ایف اور زمینی افواج کے آپریشنز کا مجوعہ، پہاڑوں اور غاروں میں ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں بہت کامیاب ثابت ہوا"۔

نشانے کی راہنمائی سے کیے جانے والے فضائی حملے

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پی اے ایف کو آپریشن ضربِ عضب میں کفایت سے مگر موثر طریقے سے استعمال کیا گیا جس نے فوج کو عسکریت پسندوں کو بھاری نقصان پہنچانے میں مدد فراہم کی"۔

انہوں نے کہا کہ پی اے ایف نے فصائی بمباری میں نشانے کی درست راہنمائی کرنے والے اسلحے کو استعمال کیا تاکہ ثانوی نقصان سے بچا جا سکے اور مطلوب اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں، پی اے ایف کے فضائی حملوں نے انہی مقامات کو نشانہ بنایا جہاں پر صرف طالبان کے ارکان موجود تھے۔

شاہ نے کہا کہ زمینی انٹیلیجنس پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ، پی اے ایف کے جہازوں نے فضائی نگرانی بھی کی تاکہ فضائی حملے کرنے سے پہلے عسکریت پسندوں کے بالکل درست مقامات کی شناخت کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ "دو واقعات میں پی اے ایف نے شمالی وزیرستان میں حملہ نہیں کیا کیونکہ ان کی فضائی نگرانی سے پتہ چلا تھا کہ طالبان کے ٹھکانوں میں کچھ بچے موجود ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات میں فوج نے طالبان کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے زمینی افواج کو استعمال کیا تاکہ ثانوی نقصان سے بچا جا سکے۔

شاہ کے مطابق، فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی بالکل درست تعداد میسر نہیں ہے مگر فوجی حکام نے اندازہ لگایا ہے کہ 2015 اور 2016 میں پی اے ایف کے فضائی حملوں میں کئی سو عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج اور سیکورٹی کی دوسری تنظیمیں عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے میں پی اے ایف کے کردار کو سراہتی ہیں۔

محدود ثانوی نقصان

سیکورٹی کے تجزیہ کار اور کراچی کے اخبار ڈیلی پاکستان کے مقامی مدیر مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "عسکریت پسندوں کے مقامات اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں بہتر انٹیلی جنس کے باعث پی اے ایف کے حملے بہت زیادہ ناپ تول کر کیے گئے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ بہترین زمینی اور فضائی نگرانی نے انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر پی اے ایف کو خیبر ایجنسی اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے قابل بنایا۔

انہوں نے کہا کہ "اس نے فوج کو بااختیار بنایا کہ وہ ان علاقوں میں اپنے نفوذ کو وسیع کرے اور اسے قائم رکھے جو اس سے پہلے طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے زیرِ تسلط تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے پی اے ایف کی فضائی بمباری کے نتیجہ میں ہونے والے کسی ثانوی نقصان کے بارے میں نہیں سنا جس سے انٹیلی جنس کے اعلی معیار اور فضائیہ کے حکام کی طرف سے اٹھائے جانے والے بہترین اقدامات کی عکاسی ہوتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے، فوجیوں نے فضائی حملوں سے پہلے کچھ علاقوں کو عام شہریوں سے خالی کروایا جس کے نتیجہ میں صرف طالبان اور ان کے ساتھی عسکریت پسند ہی فضائی بمباری کا نشانہ بنے۔

میر نے کہا کہ "ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پی اے ایف کی شمولیت کے بغیر آپریشن ضربِ عضب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا تھا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500