اسلام آباد -- پاکستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے متعلق پُرتشدد واقعات سنہ 2016 کی دوسری سہ ماہی میں رو بہ زوال ہیں، جن میں سب سے بڑی تبدیلی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں دیکھی گئی ہے۔
اسلام آباد کے مقامی سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی تازہ ترین سیکیورٹی رپورٹ میں کہا، "سنہ 2016 کی دوسری سہ ماہی کے دوران پورے ملک میں پرتشدد واقعات میں [پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں] لگ بھگ 40 فیصد کمی دیکھی گئی۔ پرتشدد واقعات میں سب سے زیادہ کمی فاٹا میں دیکھی گئی جب فوجی آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے۔"
فاٹا میں دہشت گردی سے متعلقہ اموات میں تقریباً 75 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی -- جنوری اور مارچ کے دمیان 244 سے اپریل اور جون کے درمیان 62 تک۔ صوبہ پنجاب میں 52 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جو کہ پہلی سہ ماہی میں 163 سے دوسری سہ ماہی میں 78 ہو گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا، "پنجاب میں فساد کے متاثرین میں، سب سے زیادہ شرح فیصد (80 فیصد) عسکریت پسندوں اور مجرموں کی تھی۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر، صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہت زیادہ تسلی بخش لگتی ہے اور دفاعی ایجنسیوں کے خوب قابو میں ہے۔"
خیبرپختونخوا (کے پی) میں پرتشدد واقعات میں 27 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جس میں پہلی سہ ماہی میں 126 اموات کے مقابلے میں دوسری سہ ماہی میں 92 اموات ہوئیں۔
باقی ماندہ پاکستان کے مقابلے میں، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلقہ اموات میں بہت معمولی کمیاں واقع ہوئیں -- بالترتیب تقریباً 9 فیصد اور 8 فیصد۔
دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں دوسری سہ ماہی میں 38.5 فیصد کمی ہوئی، جو 872 سے کم ہو کر 536 ہو گئیں۔ مرنے والوں میں 335 عسکریت پسند، 96 جرائم پیشہ افراد اور 44 باغی شامل تھے۔ سی آر ایس ایس نے عسکریت پسندوں اور باغیوں کے درمیان فرق کی وضاحت نہیں کی۔
ایک اعلیٰ سطحی عسکریت پسند جسے مئی میں ہلاک کیا گیا افغان طالبان کا اس وقت کا سپریم کمانڈر، ملا اختر محمد منصور تھا۔ اسے بلوچستان میں مارا گیا۔
عسکریت پسندوں کو عملی، نظریاتی طور پر شکست دینا
سی آر ایس ایس کی رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا، جبکہ آپریشن ضربِ عضب نے عسکریت پسندوں کو عملی طور پر کچل دیا ہے، عسکریت پسندوں کے نظریہ سے لڑنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، "پاکستان عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں، ہتھیاروں کی کھیپوں کو مادی طور پر تباہ کرنے میں زیادہ ماہر ہو گیا ہے اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار/ہلاک کر رہا ہے، لیکن وہ نظریہ جو اسے ہوا دیتا ہے تقسیم پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔"
"جب تک اس نظریئے کو ایک مرتکز سوچ کے ذریعے ہدف نہیں بنایا جاتا اور سیاسی خواہش کے ساتھ آگے نہیں بڑھایا جاتا، یہ عارضی راحت مختصر وقت کے لیے ہو سکتی ہے۔"
سی آر ایس ایس کے انتظامی ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اطلاعات پر مبنی کارروائیوں اور دفاعی ایجنسیوں کی مشترکہ کوششوں نے پاکستان میں عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کی ہے اور نو-گو ایریاز کا خاتمہ کیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ یہ نام نہاد "نو-گو ایریاز" عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے ان مضبوط قبضوں کو ختم کر دیا ہے، جس سے دہشت گردوں کی لوگوں کو مارنے کی صلاحیت تباہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا، "معاشرے میں سے دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہاپسندی ختم کرنے کے لیے حکومت اور دفاعی اداروں پر لازم ہے کہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔"
اقدامات کی کامیابی کے لیے کریڈٹ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دو شدید اقدامات نے دہشت گردی کو کمزور کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو عسکریت پسندوں پر کریک ڈاؤن کرنے اور دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر زور دینا جاری رکھنا چاہیئے۔ این اے پی ایک انسدادِ دہشت گردی منصوبہ ہے جسے حکومت نے دسمبر 2014 میں نافذ کیا تھا۔
پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دو سال پر محیط فوجی آپریشن ضربِ عضب نے دہشت گردی کو اس کی پست ترین سطح تک کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔"
انہوں نے کہا، ضربِ عضب، شمالی وزیرستان میں ہونے والا ایک فوجی آپریشن جو جون 2014 میں شروع ہوا تھا، نے عسکریت پسندوں کے بنیادی ڈھانچے، نیٹ ورک اور تربیتی مراکز کو ختم کر دیا ہے، اور فوج نے گرفتار شدہ یا ہلاک ہونے والے جنگجوؤں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا ہے۔
دہشت گردی کو مستقلاً شکست دینا
تاہم شاہ اور دیگر لوگ کامیابی کو مستقل بنانے کے لیے دیرپا اصلاحات کی ضرورت کو دیکھتے ہیں۔
شاہ نے مشورہ دیا، "حکومت پر لازم ہے کہ فاٹا میں اصلاحات نافذ کرے اور وہاں دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے اسے [کے پی کا] حصہ بنائے۔"
پشاور کی مقامی قبائلی این جی اوز کے کنسورشیم کے چیئرمین، زر علی موسیٰ زئی کے دہشت گردی کے خلاف مشکلوں سے کی گئی پیش رفت کو مضبوط بنانے کے لیے اور خیالات ہیں۔
موسیٰ زئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "درست ہے، کہ فاٹا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن ہنوز، فاٹا میں دفاعی اہلکاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح لڑائیاں ہوتی ہیں، جبکہ سرحد پار دہشت گردی جاری ہے۔"
عسکریت پسندوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے موسیٰ زئی کے کئی نکتہ ہائے نظر ہیں: فاٹا اور اس سے ملحقہ علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنا، سرحد پار دہشت گردی کو شکست دینا، اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے اندرونِ ملک مہاجرین کی گھروں کو واپس جانے اور اپنی معمول کی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے میں مدد کرنا۔
انہوں نے کہا کہ حکام کو فاٹا میں تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو کے لیے تیز رفتاری سے کوششیں کرنی چاہیئیں۔