کابل -- شیریں نے کئی ہفتے قبل، اپنے لیے شادی کا میک اوور بک کروایا تھا، لیکن بجائے اس کے کہ وہ آرائش گروں کی طرف سے خیال رکھے جانے کے دوران آرام سے لطف اندوز ہوتی، کابل کے پارلر میں موجود ہر کوئی اس بات پر تیار تھا کہ پولیس کے آنے پر دلہن کو چھپا دیا جائے گا۔
شیریں کابل کے اس پارلر کی آخری گاہک تھیں، جو کہ حکام کے حکم سے منگل (25 جولائی) کو ملک بھر میں بند کیے جانے والے ہزاروں میں سے ایک تھا۔
پارلر کی مالک عزیزہ نے کہا کہ "میں نے باہر ایک شخص کو نگرانی پر کھڑا کیا ہوا تھا... کہ اگر کچھ ہوا، تو ہم اسے باتھ روم یا اسٹور روم میں چھپا دیں گے اور پیکنگ میں مصروف نظر آئیں گے۔"
"اگر وہ مجھے جیل میں بھی ڈال دیتے ہیں، پھر بھی میں اس کا میک اوور کروں گی کیونکہ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا"۔
جس وقت کچھ آرائش گر، شیریں کے ارد گرد گھوم پھر رہی تھیں، دوسرے پارلر اپنا سامان باندھنے میں مصروف تھے۔
پارلر کے دیگر سینکڑوں ملازمین کی طرح، انہیں کام کرنےکے لیے موجود اس آخری میدان میں سے بھی، جو ابھی خواتین کے لیے کھلا تھا، باہر دھکیل دیا گیا ہے۔
بیوٹی پارلرز پر پابندی، نہ صرف خواتین کے لیے کمائی کرنے کی صلاحیتوں پر -- یہ پارلر کے مالکان اور کارکنان کے لیے اپنے گھر والوں کی لیے روزی کمانے کا واحد ذریعہ ہیں -- بلکہ ان کی سماجی زندگیوں کے لیے بھی تازہ ترین دھچکا ہے۔
کابل میں پارلر کی ایک گاہک، 21 سالہ بہارا نے کہا کہ "جب ہم نے سنا کہ پارلر بند ہو رہے ہیں تو ہمارا دل ٹوٹ گیا کیونکہ وہ ایسی جگہیں تھیں جہاں ہم نہ صرف اپنی ظاہری شکل کا خیال رکھتے تھے، بلکہ ہم دوستوں سے مل سکتے تھے، نئے دوست بھی بنا سکتے تھے، گپ شپ کر سکتے تھے اور اپنے دکھ کم کر سکتے تھے۔"
"خواتین کو تفریحی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم لطف اندوز ہونے کے لیے کہاں جا سکتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے سے ملنے کے لیے کہاں جمع ہو سکتے ہیں؟"
لڑکیوں اور خواتین پر ہائی اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے، انہیں پارکوں، تفریحی میلوں اور جمنازیم میں جانے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں عوام میں پردہ کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کو اقوام متحدہ یا این جی اوز کے لیے کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، ہزاروں کو سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے یا گھر میں رہنے کے لیے تنخواہ دی گئی ہے۔
تمام راستے بند
کمیلا نے ایک سال قبل ایک پارلر میں اس وقت کام کرنا شروع کیا تھا جب اس کی میڈیا کی نوکری چلی گئی تھی اور اب وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ اپنے پانچ افراد کے خاندان کے لیے واحد کمانے والے کے طور پر، 19 سالہ لڑکی نہیں جانتی کہ وہ اپنے بیوٹی پارلر کی تنخواہ کے بغیر کیا کرے گی۔
اِس ہفتے اس نے پارلر کے آخری گاہکوں میں سے ایک کے لمبے کالے بالوں کو باندھتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ "بیوٹی سیلون بند کرنے کا مطلب ہے کہ میرے لیے تمام دروازے بند ہیں، جس کا مطلب ہے کہ میں افغانستان میں ایک عورت کے طور پر کام نہیں کر سکتی اور نہ ہی رہ سکتی ہوں۔"
"شاید کل [حکام] کہیں گے کہ خواتین کو سانس لینے کی اجازت نہیں ہے۔"
28 سالہ منیزہ نے 2018 سے اپنا پارلر بنانے اور اسے ترقی دینے میں وقت اور پیسہ لگایا ہے اور تقریباً 200 خواتین کو صنعت میں کام کرنے اور "خود کفیل" بننے کی تربیت دی ہے۔
اب اس کے موجودہ 25 ملازمین، ان کے خاندانوں کے تمام اہم کمانے والے، واپس وہیں آ گئے ہیں جہاں سے وہ شروع ہوئے تھے اور منیزہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی تمام کوششیں رائیگاں جاتی دیکھیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "میں نے بہت محنت کی، اور اب میری کامیابی کچھ بھی نہیں رہ گئی۔"
"میں نے ملک میں رہ کر حکومت کو ٹیکس ادا کیا، اور اب یہ ہمارا بیوٹی سیلون بند کر رہے ہیں۔ یہ بہت شرم کی بات ہے، یہ ملکی معیشت اور ہمارے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔"
پابندی کے نافذ ہونے سے پہلے کے ہفتوں میں، خواتین اپنے بالوں کو رنگنے اور بھنویں بنانے کے لیے پارلر پہنچیں -- جو ان کے لیے اپنے لیے کچھ کرنے کا آخری موقع تھا۔
وزارت برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے دعویٰ کیا کہ میک اوور پر خرچ کی جانے والی بڑی بڑی رقومات، غریب خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہیں اور یہ کہ کچھ چیزیں -- جیسے پلکوں کو بڑھانا اور بالوں کو بُنانا -- غیر اسلامی تھے۔
لیکن بیوٹیشن نجلا نے محسوس کیا کہ یہ کام ایک اچھی، اخلاقی زندگی ہے۔
وہ یتیم ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں نے کہا کہ "میں اچھا کام کر رہی تھی، مجھے گھر لے جانے کے لیے تھوڑی سی روٹی مل جاتی تھی۔ اب میں کیا کروں؟"
"وہ اصل میں ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے خواتین کے لیے تمام جگہیں بند کر دی ہیں۔ شاید ایک دن وہ صرف یہ کہیں گے کہ 'جب بھی لڑکی پیدا ہو، اسے زندہ دفن کر دو۔'"