حقوقِ انسانی

خواتین کا دن بدن پردے کو ترک کرنا ایرانی حکومت کے لیے فرمان کے نفاذ میں مشکلات کا باعث بن رہا ہے

از پاکستان فارورڈ

ایرانی طالبِ علم اپنے ہائی اسکول کے سامنے سر پر لازمی طور پر لیا جانے والا اسکارف اتار رہے ہیں۔ [انڈیپینڈنٹ فارسی]

ایرانی طالبِ علم اپنے ہائی اسکول کے سامنے سر پر لازمی طور پر لیا جانے والا اسکارف اتار رہے ہیں۔ [انڈیپینڈنٹ فارسی]

ایرانی سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ملک بھر میں ایک مال اور ایسے متعدد کاروباری اداروں کو تالے لگا دیے ہیں جنہوں نے ایسی خواتین کو، جو ریاست کے لازمی سر ڈھانپنے کے ضابطے کی پابندی نہیں کرتیں، داخل ہونے، خریداری کرنے یا کھانے کی اجازت دی تھی۔

ایرانی خواتین حکومت کی طرف سے لازمی طور پر سر ڈھانپنے کے اس فرمان پر، غیر معمولی پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں، جو اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے نافذ ہے۔

اگرچہ ایسے مظاہروں میں، جو کہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں ہونے والے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ وسیع مظاہرے تھے، حالیہ مہینوں میں کمی آئی ہے، لیکن ان کا خواتین کے لازمی ضابطہِ لباس پر مضبوط اور مستقل اثر پڑا ہے۔

خواتین کی قیادت میں اور خواتین کی ذاتی آزادیوں پر توجہ مرکوز کرنے والے مظاہروں کو، ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی "مناسب طور پر سر ڈھانپنے میں مبینہ ناکامی کے بعد "اخلاقی پولیس" کی حراست میں موت نے بھڑکا دیا تھا۔

تل ابیب میں 29 اکتوبر کو ایرانی مظاہروں کی حمایت میں ایرانی نژاد اسرائیلیوں کے اجتماع کے دوران، مظاہرین میں سے ایک خاتون اپنے بالوں کی لٓٹ کاٹ رہی ہے۔ [جیک گیز/اے ایف پی]

تل ابیب میں 29 اکتوبر کو ایرانی مظاہروں کی حمایت میں ایرانی نژاد اسرائیلیوں کے اجتماع کے دوران، مظاہرین میں سے ایک خاتون اپنے بالوں کی لٓٹ کاٹ رہی ہے۔ [جیک گیز/اے ایف پی]

تہران کے مشہور مینارِ آزادی کے سامنے ننگے سر والی خواتین اپنے بازو اوپر اٹھا رہی ہیں۔ [سوشل میڈیا]

تہران کے مشہور مینارِ آزادی کے سامنے ننگے سر والی خواتین اپنے بازو اوپر اٹھا رہی ہیں۔ [سوشل میڈیا]

ملک بھر میں ہزاروں خواتین نے اس بغاوت میں حصہ لیا تھا جو کئی مہینوں سے پک رہی تھی۔ خلاف ورزی کی کارروائیوں میں، خواتین نے اپنے سر سے اسکارف اتارے اور کیمرے پر اپنے بال کاٹ کر تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں۔

مشہور شخصیات سر پر اسکارف کے بغیر، لوگوں کے درمیان نظر آتی رہی ہیں جن میں عوامی تقریبات میں شامل رہی ہیں۔

اگرچہ کچھ لوگوں کی سرِعام سرزنش کی گئی ہے اور انہیں ان کی روزی روٹی سے محروم کر دینے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں، لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا، جس سے بہت سے عام شہریوں میں اس بات کی کی پیروی کرنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے لازمی طور پر سر ڈھانپنے کا حکم، اسلامی جمہوریہ کی طرف سے خواتین کو دبانے اور ان کی سماجی موجودگی کو محدود کرنے کا بنیادی حربہ رہا ہے۔

خواتین کی سرکشی

ایرانی خواتین کی نوجوان نسل، جو اسلامی انقلاب کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، اپنی ماؤں سے زیادہ بہادر اور بے باک ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے ضابطہِ لباس کی نافرمانی کی ہے، جو انتہائی سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے دور میں اور بھی سخت ہو گیا ہے۔

ایسی ویڈیوز جن میں خواتین کو اسکارف کو آگے کرنے کے حکم دیا گیا ہے یا خواتین کی اخلاقیات پولیس کی طرف سے "بات چیت" کے لیے پولیس وین میں دھکیلنے پر چیختے اور مزاحمت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، احتجاج شروع ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

حکومت کی اخلاقی پولیس نے خواتین کی خبرسازی کو "درست" کرنے اور ریاست کے لازمی ضابطہِ لباس کو نافذ کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ان دنوں اس نے خواتین کے لباس پہننے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرنے کے علاوہ سب کچھ ترک کر دیا ہے۔

متعدد خواتین نے المشارق کو بتایا کہ وہ مہینوں سے حکومت کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہیں اور اب وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے بال نہیں ڈھانپتیں۔

ایک 45 سالہ نرس نے کہا کہ وہ اپنا سر ڈھانپے بغیر گھر سے نکلنے کی اس حد تک عادی ہو گئی ہیں کہ اب وہ "کبھی ضرورت پڑنے کی صورت میں" کے لیے اپنے ہینڈ بیگ میں اپنا اسکارف رکھنا بھی بھول جاتی ہیں۔

زیادہ تر نجی ادارے خواتین کے لیے لازمی بال ڈھانپنے کو نافذ نہیں کرتے ہیں۔

ایک 33 سالہ اکاؤنٹنٹ جو اب لوگوں میں جاتے ہوئے اپنے بال نہیں ڈھانپتی ہیں، نے کہا کہ وہ "آزاد" محسوس کرتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ "ان دنوں، اگر میں کسی عورت کو اسکارف پہنے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے"۔

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ "خواتین کو محدود کرنا حکومت کے ستونوں میں سے ایک ہے اور ہماری فتح نے اس ستون کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔"

جکڑی ہوئی حکومت

خواتین کی بہت بڑی تعداد، جنہوں نے اپنے بالوں کو ڈھانپے رکھنے سے انکار کر دیا ہے، نے حکومت کو پابند سلاسل کر دیا ہے اور حکومت کے اہلکاروں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ تعطل کا شکار ہیں۔

بہت سے لوگوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سر ڈھانپنا "زمین کے قانون" کا حصہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ملک کی سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ کرنا غائب ہو گیا ہے۔

ہر سال گرم موسم کی آمد کے ساتھ، اخلاقی پولیس روایتی طور پر خواتین پر پردہ کرنے اور پروٹوکول کی پیروی" کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ اس سال بھی، یہ افواہیں ہیں کہ گرم دنوں کا مطلب سخت نفاذ ہو سکتا ہے۔

ایک 26 سالہ ڈینٹل ہائیجنسٹ نے کہا کہ وہ افواہوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ "حکومت ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے کئی مہینوں سے خوف زدہ ہونا چھوڑا دیا ہے؛ ہم اب اسے شروع کرنے والے نہیں ہیں۔"

مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اب تک، چند تقاریر میں ایرانی رہبر علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سر ڈھانپنے پر مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں، اگرچہ ان کا لہجہ اتنا مضبوط نہیں تھا جتنا کہ بہت سے مبصرین کی توقع تھی۔

ایرانی پارلیمنٹ (مجلس) کے اسپیکر محمد باقر غالباف نے 19 اپریل کو کہا کہ حکام کو اس خلاف ورزی کا مقابلہ کرنے کے لیے "ایک منصوبہ بنانا چاہیے"۔

'سر نہ ڈھانپا تو کوئی سروس نہیں'

قابو کرنے کی ناکام کوششوں کے ایک سلسلے کے بعد، جسے اس نے خواتین کی بے حسی اور لاقانونیت کے طور پر بیان کیا ہے، حکومت نے دھمکیوں کا سہارا لیا ہے۔

شہریوں پر جبر کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کا بنیادی ستون، قانون نافذ کرنے والی فورسز (ایل ای ایف) رہی ہیں، جن کی قیادت عام طور پر سپاہ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) یا آئی آر جی سی سے منسلک بسیج کے سابق یا موجودہ افسران کرتے ہیں۔

تہران کے پولیس سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور میں، بسیج کے سابق اہلکار بریگیڈیئر جنرل احمد رضا رادان کو، خواتین کے سر ڈھانپنے کے فرمان کو نافذ کرنے اور مرد ڈاکٹروں کو ایرانی ہسپتالوں میں رواج کے مطابق ٹائی نہ پہننے کا حکم دینے پر برا بھلا کہا گیا تھا۔

رادان کو 2014 میں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ تاہم، جنوری میں، خامنہ ای نے اس وقت کے، ایل ای ایف کے مجموعی کمانڈر حسین اشتیری کو ہٹا دیا اور ان کی جگہ رادان کو تعینات کر دیا جسے فرمان کی بحالی کی ایک مایوس کن کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔

اب تک، رادن کے کام کا بڑا حصہ ان کاروباروں کو بند کرنے کا حکم دینا رہا ہے جو فرمان کی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔

ایل ای ایف نے 25 اپریل کو، کئی کاروباروں اور تہران کے ایک بڑے مال کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ ان کاروباروں میں مشہور شخصیات کی ملکیت والی دکانیں بھی شامل ہیں۔

خواتین پراعتماد ہو گئیں

ایک 74 سالہ خاتون، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے 1979 میں ایرانی بادشاہت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا تھا اور تب سے وہ اس پر پچھتا رہی ہیں، نے کہا کہ ان کی حوصلہ افزائی ان نوجوان خواتین سے ہوتی ہے جو بہادری سے اپنے سر سے چادریں اتارتی ہیں۔

اس نے المشارق کو بتایا کہ "سچ میں، جب میں سر پر اسکارف رکھتی ہوں تو میں تقریباً شرمندہ ہوتی ہوں۔"

گزشتہ چند مہینوں میں، ایل ای ایف نے بارہا اعلان کیا ہے کہ سر ڈھانپنے والے فرمان پر عمل کرنے میں ناکامی کا مطلب، سرکاری دفاتر اور عوامی مقامات جیسے سب وے پر "خدمات" میں خلل ہو گا۔

لیکن تہران میٹرو کے سی ای او مسعود دورستی نے 9 اپریل کو کہا کہ انہیں خواتین کے سر ڈھانپنے یا "مناسب طور پر ڈھانپے" نہ ہونے پر سب وے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کے بارے میں کوئی حکم نامہ یا میمورنڈم موصول نہیں ہوا ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہےکہ ہو سکتا ہے کہ خواتین سرکاری دفاتر میں لازمی ضابطہِ لباس کی پابندی کریں لیکن کہ وہ احاطے سے نکلتے ہی پردہ ختم کر دیتی ہیں۔

ایک 53 سالہ فیشن ڈیزائنر نے کہا کہ "ہمیں اپنا سکارف واپس اوڑھنا پڑ سکتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے ہی ہمیں مجبور کیا جاتا ہے۔"

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ "ہو سکتا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی جیت ہو لیکن سر پر اسکارف لیے بغیر گھر سے نکلنا مجھے ہر روز خوش کرتا ہے۔ اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500