ہیگ، نیدرلینڈ -- یورپین یونین کی پولیس ایجنسی کے مطابق، "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اپنی نام نہاد "خلافت" کے خاتمے کے بعد، نئی بھرتیوں کے لیے ملینیل جنریشن کی خواتین کو نشانہ بنا رہی ہے۔
جون 2014 سے اگست 2018 کے دوران، داعش کی طرف سے خواتین پر مرکوز پروپیگنڈا کے بارے میں ایک رپورٹ میں یوروپول نے کہا کہ اس سے مسقبل کی دہشت گرد تنظیموں میں خاتون عسکریت پسندوں کے کردار میں تبدیلی کی "راہ ہموار" ہو سکتی ہے۔
یوروپول کے یورپین کاونٹر ٹیررازم سینٹر کے سربراہ مینول نیوارتی نے 14 جون کو ہیگ میں اس رپورٹ کی رونمائی کے موقع پر اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "ہم خصوصی طور پر ملینیلز کی بات کر رہے ہیں"۔
نیوراتی نے کہا کہ "داعش کا پروپیگنڈا 16 سے 25 سال کی خواتین پر مرکوز ہے جو کہ ان سرگرمیوں کے لیے زیادہ زدپذیر ہے اور ان کے پاس سوشل میڈیا تک رسائی موجود ہے۔ داعش نے نیا حدف بنا لیا ہے"۔
داعش نے خصوصی طور پر خواتین عسکریت پسندوں کو تنظیم کے اندر "زیادہ متحرک" کردار مختص کیے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں خواتین کے بارے میں بنیاد پرستانہ خیالات کو بھی قائم رکھا ہے۔
نیوراتی نے کہا کہ "انہیں نے کسی طرح خواتین کو دیے گئے روایتی کردار کو قائم رکھا ہے جو مردوں کی مدد اور خیال رکھنا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "لیکن پھر انہوں نے خواتین سے کہنا شروع کیا کہ وہ مختلف کردار ادا کریں، ایک ڈاکٹر کے طور پر مدد کریں، مختلف طریقے سے مدد کریں اور صرف روایتی گھریلو عورت کا کردار ادا نہ کریں"۔
بے گھر داعش نئے علاقے کی تلاش میں
ملینیل خواتین کو بھرتی کرنے کی کوشش، اتحادی افواج کی طرف سے داعش کو عراق اور شام سے اس سال کے آغاز میں، اس کی نام نہاد "خلافت" کو جڑ سے اکھاڑے جانے کے بعد شروع ہوئی ہیں۔ اب، جنگجو بظاہر اپنی توجہ کو افغانستان اور دوسرے ممالک کی طرف مرکوز کر رہے ہیں تاکہ وہ پھر سے اکٹھا ہو کر اپنی متشدد عسکریت پسندی کو جاری رکھ سکیں۔
بین الاقوامی برادری اس بات پر منقسم ہے کہ ان تقریبا 4,000 غیر ملکی خواتین اور 8,000 بچوں کا کیا کیا جائے جن کا تعلق داعش سے ہے اور جو ابھی تک شام اور عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یوروپول کے مطابق، اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ خواتین کو پروپیگنڈا کے لیے نشانہ بنانے سے آنے والے سالوں میں عسکریت پسندوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
یوروپول رپورٹ نے کہا کہ "اس بات کی فکر موجود ہے کہ خواتین کے ملوث کیے جانے سے، مستقبل میں جہادی خواتین کے کردار میں ممکنہ طور پر بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو جائے گی"۔
نیوراتی نے کہا کہ خصوصی طور پر فرانس اور برطانیہ میں دہشت گردی سے متعلق خواتین کی گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "داعش کی پروپیگنڈا مشین کی طرف سے خواتین اور بچوں کے مخصوص گروہوں کی طرف سے دہشت گردی کا زیادہ فعال حصہ ہونے کے لیے پوچھنے اور مطالبہ کرنے میں تعلق ہو سکتا ہے۔
یوروپول کی ڈائریکٹر کیتھرین ڈی بول نے کہا کہ ان نتائج کے باوجود، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بنیاد پرست بنائے جانے پر توجہ دیتے ہوئے "صنفی غیر جانب درانہ" طریقہ کار کو اپنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے جنت میں جانے کا راستہ ہے"۔