جرم و انصاف

داعش کی خواتین الہول کیمپ میں نوعمر لڑکوں کو انہیں حاملہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں

از ولید ابو الخیر

ایک خاتون اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے جبکہ شامی باشندے 14 اگست کو شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیر انتظام چلنے والے الہول کیمپ جس میں داعش کے مشتبہ جنگجوؤں کے رشتہ دار قید ہیں، سے رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ [دلیل سلیمان/اے ایف پی]

ایک خاتون اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے جبکہ شامی باشندے 14 اگست کو شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیر انتظام چلنے والے الہول کیمپ جس میں داعش کے مشتبہ جنگجوؤں کے رشتہ دار قید ہیں، سے رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ [دلیل سلیمان/اے ایف پی]

کرد حکام نے المشرق کو بتایا کہ "داعش کے جنگجوؤں کی اگلی نسل کی پرورش کے منصوبے کے تحت، دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی خواتین، شمال مشرقی شام کے الہول کیمپ میں رہنے والے نوجوان نوعمر لڑکوں کو اپنے ساتھ ہمبستری کرنے اور انہیں حاملہ کرنے پر مجبور کر رہی ہیں"۔

ان میں سے زیادہ تر خواتین داعش کے جنگجوؤں کی بیوائیں ہیں اور کچھ خود داعش کے عناصر ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ خواتین، داعش کی "گو فورتھ اینڈ ملٹیپلائی" نامی مبینہ مہم، جس کا مقصد "خلافت کے بچے" کی ایک نئی نسل تیار کرنا ہے تاکہ اس گروپ کی واپسی میں مدد کی جا سکے، کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہیں۔

خواتین کے تحفظ کے یونٹس (وائے پی جے) -- پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جے) کی تمام خواتین بریگیڈ -- کی رکن روشن کوبانی نے کہا کہ کیمپ میں سخت حفاظتی اقدامات کے نفاذ کے باوجود، داعش کی خواتین اب بھی چاقو، فون اور یہاں تک کہ نوزائیدہ بچوں کو چھپانے کے طریقے تلاش کر لیتی ہیں۔

26 اگست کو کرد آسائش سیکورٹی فورسز اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ایک سیکورٹی آپریشن کے دوران لی جانے ایک تصویر میں، کردوں کے زیرانتظام چلنے والے ال ہول کیمپ کو دکھایا گیا ہے، جس میں داعش کے مبینہ جنگجوؤں کے رشتہ داروں کو، شمال مشرقی شام میں رکھا گیا ہے۔[دلیل سلیمان/اے ایف پی]

26 اگست کو کرد آسائش سیکورٹی فورسز اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ایک سیکورٹی آپریشن کے دوران لی جانے ایک تصویر میں، کردوں کے زیرانتظام چلنے والے ال ہول کیمپ کو دکھایا گیا ہے، جس میں داعش کے مبینہ جنگجوؤں کے رشتہ داروں کو، شمال مشرقی شام میں رکھا گیا ہے۔[دلیل سلیمان/اے ایف پی]

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ گرچہ کیمپ کے اندر کے کئی ذرائع نے "گو فورتھ اینڈ ملٹیپلائی" نامی مہم کے بارے میں خبروں کی تصدیق کی ہے، لیکن ابھی تک نئے بچوں کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

"زیادہ تر امکان ہے کہ ان بچوں کو ممکنہ طور پر خیموں کے اندر کھودے گئے ٹھکانوں میں چھپایا گیا ہے۔"

کوبانی نے کہا کہ داعش کی خواتین "وحشی" ہیں اور کیمپ کے اندر اور باہر گروپ کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہیں، کیونکہ وہ تولید کے ذریعے گروپ کی بحالی کے لیے پرُ امید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کو "خلافت کے بچوں" میں تبدیل کرنے کے لیے برین واش بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف کیمپ کے لڑکے خطرے میں ہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کو بھی داعش کی خواتین نے ایسے ہی پالا ہے، کیونکہ انہیں بڑے ہونے پر وہی کام انجام دینے کے لیے پالا جاتا ہے، جس میں گروپ کے نظریے کو پھیلانا اور تولیدی اوزار بننا شامل ہے۔

قاتلوں کی تربیت

ال ہول اور روج کیمپوں میں -- روج ان دونوں میں سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اور غیر ملکی خواتین اور بچوں کی رہائش گاہ ہونے کی وجہ سے -- مرد اور عورتیں مکمل طور پر الگ ہیں۔ نوجوان نوعمر لڑکوں کو بلوغت تک پہنچنے کے بعد خصوصی حصوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

کرد ہلال احمر کے ایک اہلکار آزاد دودیکی، جو الہول کیمپ میں طبی دواخانے میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ "الہول میں نوجوان لڑکوں کو خواتین سے الگ کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ خواتین لڑکوں کی حقیقت کو چھپانے کے لیے انہیں نقاب پہننے پر مجبور کر دیتی ہیں"۔

اس طرح کرنے سے، داعش کی خواتین لڑکوں کو کیمپ کے اپنے حصے میں رکھ سکتی ہیں "اس بہانے سے کہ وہ لڑکیاں ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "پھر لڑکوں کو حمل کے لیے جنسی آلات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے"۔

یہ استحصال کبھی کبھار اس وقت ثابت ہوتا ہے، جب کیمپ کے رہائشیوں کے سروے میں بہت سے ایسے بچے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کے نام رہائشیوں کے ناموں کی کسی فہرست میں نہیں ہوتے ہیں۔ دودیکی نے کہا کہ سروے ریٹنا اسکین اور فنگر پرنٹنگ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بچے کیمپ کے تمام عملے، یہاں تک کہ طبی، سماجی اور انتظامی کارکنوں سے بھی گہری نفرت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "کیمپ کی خواتین، بچوں کو چُھریوں اور دیگر تیز دھار چیزوں کے استعمال اور جنگی کھیل کھیلنے کی تربیت دیتے ہوئے پکڑی گئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان بچوں کو مارنے والی مشینوں اور ٹائم بموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔"

'خلافت کے بچے'

عدنان آزادی، جو کہ الہول میں عصیش (اندرونی سیکورٹی) فورسز کی سیکورٹی برانچ کے ساتھ کام کرتے ہیں، نے کہا کہ داعش کی نام نہاد "خلافت" کے ٹوٹنے کے بعد، گروہ اپنی فوجی طاقت کھو بیٹھا ہے اور اب جنگجوؤں کی اگلی نسل کو بڑھانے کے لیے، اس کی توجہ الہول کیمپ پر مرکوز ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیمپ میں خواتین دہشت گردانہ نظریہ پھیلاتی ہیں اور بچوں کو "خلافت کے بچوں" میں تبدیل کرنے کے لیے ان کی برین واشنگ کرتی ہیں اور اس طرح ایک ایسی بنیاد بنتی ہے جس کے ذریعے گروپ واپس آ سکتا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل "ایرک" کریلا نے گزشتہ سال الہول کا دورہ کرنے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ "یہ جگہ [داعش] کی اگلی نسل کے لیے ایک حقیقی افزائش گاہ ہے۔"

آزادی نے کہا کہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ داعش کی خواتین بچوں کے استحصال میں غیر انسانی کردار ادا کر رہی ہیں، کیونکہ خواتین کو ابتدا میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں "جنگجوؤں کو پیدا کرنے اور تفریح فراہم کرنے" کے لیے لایا گیا تھا۔

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ خواتین اور شادی "ان بنیادی ہتھیاروں میں سے تھے جو گروپ دنیا بھر کے نوجوانوں کو شام کی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا"۔

آزادی نے خبردار کیا کہ الہول "ایک ٹک ٹک کرتا ہوا ٹائم بم ہے جو اپنے اندر موجود لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے، اور اس سے ان تمام ممالک کو تشویش ہے جن کے شہری کیمپ میں موجود ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ بالآخر، یہ تمام ممالک کو متاثر کرے گا کیونکہ داعش کا انتہا پسند نظریہ بغیر کسی استثنا کے سب کو متاثر کرتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500