کراچی – پاکستانی حکام ضلع لاڑکانہ، صوبہ سندھ میں ہیومن ایمیونوڈیفیشنسی وائرس )ایچ آئی وی( کی حالیہ پھوٹ کی انسداد کے لیے بڑے پیمانے پر کاوشوں کا آغاز کر رہے ہیں۔
24 اپریل کو ضلع لاڑکانہ کے قصبہ رتوڈیرو میں درجنوں بچوں میں اس وائرس کی مثبت جانچ ہوئی۔
پاکستان میں صحتِ عامّہ ایک حساس معاملہ ہے جو پولیو ویکسینیٹرز کو قتل کرنے اور صحت کے لیے دیگر بین الاقوامی کاوشوں کو ناکام بنانے کیتحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کوششوں سے معرکہ آرا رہا ہے۔
رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے ردِّ عمل میں حکام اور صحت سے متعلقہ بین الاقوامی ادارے باشندوں، بطورِ خاص بچوں کی بڑے پیمانے پر سکریننگ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں اور غیر مستند ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اس بیماری کے پھیلاؤ کا باعث سمجھے جانے والے غیر قانونی بلڈ بینکس اور لیبارٹریز کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔
11 مئی تک رتوڈیرو کے قصبہ میں طبی عملہ نے 7,500 سے زائد باشندوں کی سکریننگ کی ہے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ایک عہدیدار ڈاکٹر سکندر میمن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رتوڈیرو اور ضلع لاڑکانہ کے دیگر دو قصبوں میں 25 اپریل سے اب تک 270 بچوں سمیت 337 افراد کی ایچ آئی وی سے متعلق مثبت جانچ ہوئی ہے۔
میمن نے مزید کہا کہ صوبہ کے دیگر حصّوں میں ایسے دیگر پھیلاؤ کی خبریں غلط ہیں۔
اے ایف پی نے خبر دی کہ طویل عرصہ سے طبی عملہ خیال کرتا تھا کہ پاکستان ایچ آئی وی کے کم واقعات کا حامل ملک ہے، لیکن یہ وائرس بطورِ خاص درونِ ورید ادویات کے استعمال کنندگان اور جنسی کارکنان کے مابین ایک پریشان کن شرح سے پھیل رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ (UN) کے مطابق، صرف 2017 میں ایچ آئی وی کی 20,000 نئی انفکشنز رپورٹ ہونے کے ساتھ پاکستان ایشیا میںHIV کے بڑھنے کی تیز ترین شرح میں دوسرے نمبر پر ہے۔
غیر مستند ڈاکٹروں کی پریکٹس کی انسداد
حکام کا کہنا ہے کہ ضلع لاڑکانہ میں بیماری کی حالیہ لہر کے پیچھے بنیادی وجہ غیر مستند ڈاکٹروں کی جانب سے سرنجوں کا دوبارہ استعمال ہے۔
پولیس نے 3 مئی کومبینہ طور پر مریضوں پر آلودہ سوئیاں استعمال کرنے پر ایک مقامی بچوں کے ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا۔
لاڑکانہ کے کمشنر سلیم رضا کھوڑو نے کہا کہ حکام غیر مستند ڈاکٹروں، غیر قانونی بلڈ بینکس اور لیبارٹریوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں۔
کریک ڈاؤن کے جزُ کے طور پر پولیس نے لاڑکانہ میں 17 غیر مستند ڈاکٹروں کو گرفتار کیا ہے اور 70 سے زائد کلینکس کو بند کر دیا ہے۔
سندھ اسمبلی نے جنوری 2011 میں متفقہ طور پر ایک بل منظور کیا جس میں ڈسپوزایبل سرنجز کے دوبارہ استعمال اور فروخت کو صوبے میں دو برس تک قید کی سزا کا حامل ایک ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا گیا۔
مشاہدین کا کہنا ہے کہ تاحال بالخصوص صوبے کے پسماندہ دیہی علاقوں میں اس قانون کے نفاذ کا فقدان ہے۔
ایک کراچی اساسی شہری حقوق کی خودمختار تنظیم، اربن ریسورس سنٹر میں ایک عہدیدار زاہد فاروق نے کہا، "پاکستان کے دیہی علاقوں اور بے قاعدہ شہری آبادیوں میں ایک مرتبہ استعمال ہونے والی ڈسپوزایبل سرنجز کا دوبارہ استعمال نہایت عام ہے۔"
فاروق نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، کوئی طبیب "پھینکنے سے قبل ایک سرنج کو متعدد مریضوں پر کئی بار استعمال کرسکتا ہے تاآنکہ سوئی کند ہو جاتی ہے اور مریض غیر معمولی درد کی شکایت کرتے ہیں۔"
AIDS پر قابو پانا
حکومتِ سندھ نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہنگامی فنڈز میں اپنے سندھ AIDS کنٹرول پروگرام کے لیے 34 ملین روپے (230,000 ڈالر) جاری کیے ہیں۔
ایک وفاقی ادارہ، نیشنل AIDS کنٹرول پروگرام، بھی تقریباً 3,000 HIV ٹیسٹنگ کِٹس فراہم کر کے صوبائی حکام کی معاونت کر رہا ہے۔
اس علاقہ سے منتخب ہونے والی ایک رکنِ پارلیمان فریال تالپور نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت ہنگامی بنیادوں پر اس صورتِ حال سے نمٹ رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کو چاہیئے کہ طبی مشورہ لینے کے لیے مقامی افراد کی حوصلہ افزائی کرے۔
تالپور کے مطابق، صوبائی حکومت نے خاتون کارکنان صحت کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ خواتین کے مابین HIV اور علاج سے متعلق آگاہی پیدا کریں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور سول سوسائٹی کے گروہوں نے بھی باشندوں کے لیے HIV آگاہی کی نشستوں کا اہتمام کیا ہے۔
درایں اثناء، اقوامِ متحدہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ قریبی طور پر کام کر ہی ہے۔
پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹراور ہیومینیٹرین کوآرڈینیٹر نیل بھونے نے ایک بیان میں کہا، "ہم ایسے سانحات کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کو روکنے اور ان سے نمٹٹنے کی غرض سے پاکستان میں صحت کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کی معاونت کے لیے تیار کھڑے ہیں۔"
کیا شرم کا مقام ہے کہ بلاول زرداری نے کہا کہ ایچ آئی وی خطرناک مرض نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایچ آئی وی موت کا پروانہ نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کے لئے کتنے افسوس کا مقام ہے۔
جوابتبصرے 1