سلامتی

بحالیٴ امن نے دس لاکھ سے زائد قبائلی آئی ڈی پیز کی بَد حالی کا خاتمہ کر دیا

جاوید محمود

25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل جنوبی وزیرستان کے قبائلی ضلع کے رہائشی ایک سیاسی امّیدوار کی تقریر سن رہے ہیں۔ [جاوید محمود]

25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل جنوبی وزیرستان کے قبائلی ضلع کے رہائشی ایک سیاسی امّیدوار کی تقریر سن رہے ہیں۔ [جاوید محمود]

اسلام آباد – نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق، حکومت کی جانب سے تعمیرِ نو جاری رکھے جانے کے ساتھ ایک ملین سے زائد داخلی طور پر بے دخل افراد (آئی ڈی پیز) نے قبائلی پٹی میں اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کا آغاز کر دیا ہے۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق، جنوبی وزیرستان میں واپسی کا حتمی مرحلہ – جس میں تقریباً 3,500 خاندانوں کی واپسی متوقع ہے— 25 جولائی کو شروع ہوا، جس سے واپس لوٹنے والے خاندانوں کی کل تعداد 71,000 تک پہنچ گئی۔

نادرا صرف جنوبی وزیرستان سے بے دخل 71,124 خاندانوں کی واپسی مکمل کرنے کے قریب ہے جو اوسط 8 تا 10 ارکان فی خاندان کے ساتھ پانچ لاکھ سے زائد پاکستانیوں پر مشتمل ہیں۔

اپنی آبائی سرزمین سے دور برسوں اور بعض واقعات میں ایک دہائی سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد آئی ڈی پیز واپس لوٹ کر نہایت خوش ہیں۔

گزشتہ برس 18 اکتوبر کو شمالی وزیرستان میں کٹّن آرچرڈ چوکی پر پاکستانی فوجی افغان سرحد کے ساتھ ساتھ نگرانی کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

گزشتہ برس 18 اکتوبر کو شمالی وزیرستان میں کٹّن آرچرڈ چوکی پر پاکستانی فوجی افغان سرحد کے ساتھ ساتھ نگرانی کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

کئی برسوں پر محیطردّالفساد جیسے عسکری آپریشنز نے ان قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندی کا ڈنک نکال دیااور شہریوں کے لیے گھروں کو واپسی ممکن بنائی۔

بحالیٴ امن

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار اور قبائلی علاقہ جات کے لیے سابق سیکریٹری سیکیورٹی برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہزاروں آئی ڈی پیز عسکریت پسندی اور 2004 کے بعد سے وزیرستان میں بعد ازاں عسکری آپریشنز کی وجہ سے اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، بنوں، مردان، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں مقیم تھے۔"

انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں امن لوٹ چکا ہے، اور نتیجتاً عسکریت پسندی کی وجہ سے بے دخل ہونے والے باشندوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ چکی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی، "پاک فوج نے امن کے عمل کو مستحکم کرنے، عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے اور علاقہ میں بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے کیڈٹ کالج بنائے اور وزیرستان سے سینکڑوں نوجوانوں کو بھرتی کیا۔"

شاہ نے کہا کہ حکام نے آئی ڈی پیز کی واپسی سے قبل متعدد سڑکیں بھی بنائی۔

شاہ نے حال ہی میں ایک نجی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور قبائلی پٹی کے عوام کے استفادہ کے لیے اضافی اقدامات کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، "میں نے آرمی چیف سے چھوٹے کاروباروں [کی ترقی] کے لیے شاہراہیں تشکیل دینے میں حکومت کو شامل کرنے کا کہا۔"

شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "کیڈٹ کالجز بنانا اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرنا وزیرستان کے ان عام باشندوں کی معاونت کے لیے کافی نہیں جن کے معاش کا دارومدار چھوٹے کاروباروں پر ہے۔"

مالی معاونت

خیسور کے ایک باشندے رحمت محسود نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہمارے خاندانوں، رشتہ داروں اور ہمارے علاقہ کے لوگوں کی جنوبی وزیرستان واپسی ایک ایسے بڑے جشن کی مانند تھی جس کا مشاہدہ ہم عید یا یومِ آزادی جیسے مواقع پر کرتے ہیں۔"

اسلام آباد میں مقیم محسود چند ماہ قبل جنوبی وزیرستان کو لوٹنے والے اپنے اہلِ خانہ سے جلد ہی جاملنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "باشندے اپنے گھروں اور دکانوں کو بحال کرنے اور اپنی معاشرتی اور معاشی زندگی کو حیاتِ نو دینے میں مصروف ہیں۔"

محسود نے کہا کہ حکومت نے نقصان کی زد میں آنے والے یا تباہ ہو جانے والے گھروں کے لیے بالترتیب 200,000 روپے (1,524 ڈالر) سے 400,000 روپے (3,048 ڈالر) کی مالی معاونت فراہم کی ہے۔

انہوں نے کہا، "حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی مالی معاونت ہمارے گھروں کی پہلی سی حالت میں تعمیرِ نو کے لیے ناکافی ہے۔ اکثر غریب تر باشندوں نے حکومت کی جانب سے موصول ہونے والی قلیل رقم سے عارضی گھر تعمیر کیے ہیں۔ انہوں نے باقی روپیہ چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں صرف کیا۔"

محسود کے مطابق، پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں دو، وانا میں ایک اور سپنکئی میں ایک اور کیڈٹ کالج قائم کیے ہیں، جہاں انہوں نے سینکڑوں مقامی نوجوانوں کو بھرتی کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام نے واپس لوٹنے والے بہت سے خاندانوں کے مستحکم آمدنی حاصل کرنے کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "اس سے نہ صرف امن و استحکام کو فروغ ملے گا بلکہ ایک طویل عرصہ تک علاقہ میں عسکریت پسندی کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔"

ایک خواب کی تعبیر

اسلام آباد میں الیکٹریکل انجنیئرنگ میں ملازمت کے متلاشی، میرانشاہ کے ایک باشندے، محسن خان نے کہا، "شمالی وزیرستانمیں امن کے ماحول میں بہتری آئی ہے، اور عوام کو تحفظ کا احساس ہونے لگا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "جب ہمارے علاقہ میں عسکریت پسندی جاری تھی، تو ہم اپنے گھروں سے باہر ہر وقت اپنے ساتھ اسلحہ رکھا کرتے تھے تاکہ عسکریت پسندوں کے حملہ کی صورت میں کام آئے۔"

انہوں نے کہا، "گزشتہ ماہ میں اپنے اہلِ خانہ اور اقارب سے ملنے دوبارہ میرانشاہ گیا اور یہ دیکھ کر حیران تھا کہ ان میں سے کوئی بھی اسلحہ اٹھائے ہوئے نہ تھا۔"

خان نے کہا، "ہم سب اپنے علاقہ میں امن دیکھ کر خوش ہیں، جس نے ہمارے بے دخل اہلِ خانہ اور دوستوں کو میرانشاہ واپس لوٹنے کے قابل بنایا۔"

انہوں نے کہا، "اپنے آبائی شہروں کو واپس جانا تقریباً دس لاکھ باشندوں کا خواب تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500