سلامتی

گھر بدر پاکستانیوں کے پہلے گروہ کی افغانستان سے واپسی

از حنیف اللہ

شمالی وزیرستان ایجنسی کے سرجن ڈاکٹر ذاکر حسین (درمیان میں) 16 جنوری کو پاکستان-افغانستان کی سرحد پر افغانستان سے واپس آنے والے گھر بدر قبائلیوں کا استقبال کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

شمالی وزیرستان ایجنسی کے سرجن ڈاکٹر ذاکر حسین (درمیان میں) 16 جنوری کو پاکستان-افغانستان کی سرحد پر افغانستان سے واپس آنے والے گھر بدر قبائلیوں کا استقبال کرتے ہوئے۔ [حنیف اللہ]

میرانشاہ، پاکستان -- حکام نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی جو فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے افغانستان بھاگ گئے تھے انہوں نے، اپنی گھر بدری کے دو سال بعد، گزشتہ ہفتے گھر واپس لوٹنا شروع کر دیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران خان آفریدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ شمالی وزیرستان سے گھر بدر ہونے والے افراد کے پہلے گروہ، جس کی تعداد تقریباً 2،000 تھی، کا استقبال 16 جنوری کو حکام کی جانب سے غلام خان بارڈر کراسنگ پر کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 26 جنوری کو پہلے مرحلے کے اختتام تک روزانہ تقریباً 200 خاندانوں کا واپس لوٹنا متوقع ہے۔

تاہم، فاٹا کے محکمۂ انتظامِ قدرتی آفات (ایف ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر افعال محمد عارف خان کے مطابق، شدید بارشوں نے اس عمل کو سست کر دیا ہے، اور ابھی تک صرف کُل 550 خاندان واپس پہنچے ہیں۔

آفریدی نے کہا کہ گھر بدر ہونے والوں کو پہلے کیمپوں میں ٹھہرایا جائے گا جس کے بعد انہیں ان کے دیہاتوں اور شہروں میں بھیجا جائے گا۔

اگلے مراحل کی تفصیلات آگے آئیں گی۔

پاکستانی فوج نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں عسکریت پسندوں کی چھاؤنیوں کا صفایا کرنے کے لیے جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔

ایسے افراد کی تعداد کے مختلف تخمینے ہیں جو لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے۔ پاکستانی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق، عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد تقریباً 9،000 خاندان شمالی وزیرستان سے افغانستان چلے گئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق، دسمبر 2014 تک، 291،800 سے زائد افراد سرحد پار کر رکے افغانستان گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر صوبہ خوست میں گولان کیمپ میں مقیم ہوئے تھے۔ مئی 2015 تک، خوست اور پکتیکا صوبوں نے 205،000 افراد پر مشتمل 32،576 خاندانوں کی مہمان نوازی کی تھی۔

گھر واپسی پر خوش

میرانشاہ کے ایک قبائلی عمائد، 45 سالہ ملک سلیم حال ہی میں گولان کیمپ سے واپس لوٹے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمیں خوشی ہے کہ حکومتِ پاکستان نے واپسی کا عمل شروع کیا ہے اور ہمارے علاقے میں امن بحال کر دیا ہے، اور ہم مہمان نوازی اور دیکھ بھال کے لیے افغان حکومت کے بھی شکرگزار ہیں۔"

میران شاہ کے نائب پولیٹیکل ایجنٹ محمد انور خان شیرانی نے کہا کہ پائے خیل اور محمد خیل قبائل کے تقریباً 200 خاندانوں نے واپسی کے عمل کے پہلے دن صوبہ خوست سے گھر واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔

شیرانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تمام خاندانوں کو غلام خان سے باکاخیل کیمپ تک سواری مل چکی ہے اور انتظامیہ نے [ان کے لیے] سواریوں اور کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔"

پوہا محمد خیل گاؤں کے واپس آنے والے، 28 سالہ سردراز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم بہت خوش ہیں کہ ہم دو برس بعد یہاں واپس لوٹ آئے ہیں، اور یہ کہ یہاں امن بحال ہو گیا ہے اور یہ کہ سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد یہاں مکمل کنٹرول کر لیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم اب ضلع بنوں میں باکاخیل کیمپ میں ہیں، اور توقع ہے کہ ہم جلد ہی اپنے آبائی دیہاتوں کو واپس چلے جائیں گے۔"

ہنگامی امداد، صحت خدمات

ایف ڈی ایم اے پاکستان واپس لوٹنے والے گھر بدر افراد کو امدادی سامان مہیا کر رہی ہے۔

ایف ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہنگامی امداد کی اشیاء جیسے کہ پناہ گاہیں، خیمے، کچن سیٹ اور کھانے پینے کی اشیاء واپس آنے والے خاندانوں کو دی گئی ہیں، جبکہ 25،000 روپے (238 امریکی ڈالر) کا واپسی پیکیج اور 10،000 روپے (95 امریکی ڈالر) برائے آمدورفت اس وقت مہیا کیے جائیں گے جب وہ اپنے آبائی شہروں کو واپس جائیں گے۔"

ایف ڈی ایم اے اس رسد اور آمدورفت کے لیے ادائیگی کر رہی ہے۔

خان نے کہا کہ واپسی کے تیسرے روز، 18 جنوری کو، 324 خاندان باکاخیل کیمپ پر پہنچے تھے۔

گھر بدر افراد آخرکار اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جائیں گے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واپس لوٹنے والوں میں 415 مرد، 591 خواتین اور 704 بچے شامل تھے جو عارضی طور پر کیمپ میں قیام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس سفر کی تاریخ نہیں بتائی۔

انہوں نے کہا کہ ایف ڈی ایم اے نے واپس لوٹنے والے خاندانوں، جو شام کے وقت سرحد پر پہنچتے ہیں، کے لیے رات کے قیام کے لیے غلام خان سرحد پر ایک عارضی کیمپ قائم کیا ہے۔

شمالی وزیرستان ایجنسی کے سرجن، ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا کہ ضرورت مندوں کو ہنگامی اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سرحد پر ایک عارضی صحت مرکز قائم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ فوج کی ایک میڈیکل ٹیم اور محکمۂ صحت کے اہلکار عارضی طور پر گھر بدر ہونے والے ایسے قبائلیوں کا علاج کر رہے ہیں جو سرحد پر پہنچتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہم نے گھر بدر ہونے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کا انتظام بھی کیا ہے۔"

تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ

اے ایف پی نے بتایا کہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی پٹی میں 67،000 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے، لیکن نقصان کے پیمانے کا کوئی آزادانہ تخمینہ نہیں ہے۔

ملک نے عالمی برادری سے 800 ملین امریکی ڈالر (83.9 بلین روپے) قبائلی علاقوں کی "تعمیرِ نو اور بحالی" کے لیے مانگے ہیں۔.

شمالی وزیرستان ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ نے 26 نومبر کو کُل 170 ملین روپے (1.6 ملین امریکی ڈالر) ایسے گھر مالکان میں تقسیم کیے تھے جو آپریشن ضربِ عضب کے دوران تباہ ہوئے تھے۔

میرانشاہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں، شمالی وزیرستان کے نائب پولیٹیکل ایجنٹ محمد انور خان شیرانی نے تلافی کے چیک بویا، سیدآباد، لاند اور محمد خیل کے علاقوں سے عارضی طور پر گھر بدر ہونے والے 553 افراد میں تقسیم کیے تھے۔

سیاسی انتظامیہ نے مالکان کو 346 مکمل طور پر تباہ ہونے والے ہر گھر کے لیے 400،000 روپے (3،816 امریکی ڈالر)، جبکہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے ہر گھر کے لیے 160،000 روپے (1،526 امریکی ڈالر) دیئے تھے۔

میر علی کے علاقے میں بھی، 26 نومبر کو، محمد عرفان الدین، شمالی وزیرستان کے ایک اور نائب پولیٹیکل ایجنٹ، نے 350 ملین روپے (3.3 ملین امریکی ڈالر) مالیت کے چیک دولت خیل، عمرکی، وزیرآباد، ماچھی خیل، محمدی، وازی خیل، خدری، نوانا اور کشمیر کلی کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے 207 متاثرین میں تقسیم کیے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500