پشاور -- حکام نے بتایا جمعہ (یکم دسمبر) کو جب کہ پاکستان میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منایا جارہا ہے برقعہ پوش طالبان عسکریت پسندوں نے پشاور میں ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر حملہ کر دیا جس میں نو افراد جاں بحق اور 30 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق پانچ عسکریت پسندوں نے اندر گھسنے اور طلبا کی رہائش کو نشانہ بنانے سے پہلے انسٹیٹیوٹ کے گیٹ کے قریب فائرنگ کر کے ایک چوکیدار کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا۔
پشاور میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران خیبر پختونخواہ (کے پی) کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے بتایا کہ "علیٰ الصبح برقعہ پہنے دہشت گرد بذریعہ رکشہ پہنچے اور عمارت میں داخل ہو گئے۔"
"وہ تمام خود کش جیکٹس پہنے ہوئے تھے مگر اس سے پہلے کہ وہ خود کو اڑا سکتے انھیں ہلاک کردیا گیا،" محسود نے مزید بتایا کہ سیکورٹی فورسز موقعہ واردات پر "تین منٹ کے اندر" پہنچ گئیں۔
پولیس کے مطابق عسکریت پسندوں نے چھ طلبا، ایک سیکورٹی گارڈ اور دو شہریوں کو ہلاک کیا۔
شہر کے دو ہسپتالوں کی خواتین ترجمانوں نے تصدیق کی ہے کہ انھیں کل نو نعشیں موصول ہوئیں اور 38 زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے جن کئی کی حالت نازک ہے۔
ہم نے تین نعشوں سمیت 19 افراد وصول کیے، خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر روح المقیم نے صحافیوں کو بتایا۔ اکثریت طلبا کی تھی جنہیں گولیوں کے زخم آئے۔ کچھ خود کو بچانے کے لئے عمارت سے کود گئے۔
پولیس کا فوری ایکشن
سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس آپریشنز سجّاد خان نے کہا کہ پانچوں خودکش بمبار مارے گئے اور پولیس کی فوری جوابی کاروائی کی وجہ سے خونریزی کم سے کم ہوئی۔
پشاور پریس کلب کے صدر عالمگیر خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں کو ہلاک کرنے والی سیکیورٹی فورسز نے بلا شبہ ممکنہ نقصان کو کم کیا کیوں کہ عسکریت پسندوں کے پاس "وافر ہتھیار، گولہ بارود، دستی بم اور دھماکہ خیز مواد" تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پولیس حملہ آوروں کو ان کے خود کش جیکٹیں اڑانے سے قبل ہلاک نہ کرتی تو خونریزی کہیں زیادہ ہوتی۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی حسن خان نے ٹویٹ کیا، "بہت خوب کے پی پولیس، ہمیں پولیس اور سیکورٹی فورسز پر فخر ہے۔"
‘خون کا فوّارہ’
ادارے کے ایک 19 سالہ طالبِ علم نور ولی نے ایک بھیانک ابتلا کو بیان کیا جس کا آغاز اس وقت ہوا جب گولیوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔
اس نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں دروازے کی طرف بھاگا اور دیکھا کہ میرے ساتھ رہائش پذیر ساتھی کمرے کے باہر کھڑا تھا اور اس کے کندھے سے خون کا فوّارہ ابل رہا تھا۔"
وہ اور ایک دوسرا طالبِ علم اس کی مدد کو بھاگے اور تقریباً ایک گھنٹے تک مسلح افراد سے چھپے رہے، یہاں تک کہ سیکیورٹی فورسز نے انہیں بچایا۔
اس نے کہا، "دوسرا طالبِ علم خون روکنے کے لیے اپنے ہاتھوں سے زخم کو دبائے ہوئے تھا اور مجھے اس کے منہ پر ہاتھ رکھنا پڑا تاکہ وہ چلّا نہ سکے۔"
"ہم نے ایک بیڈ روم میں پناہ لی تھی اور زخمی طالبِ علم کی منّتیں کر رہے تھے کہ کوئی آواز نہ نکالے کہ دہشتگرد اسے سن کر ہمیں قتل کر ڈالیں۔"
24 نیوز ہی پر کام کرنے والے عالمگیر خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، 24 نیوز کے ٹی وی رپورٹر رحام یوسفزئی کو "ٹانگ میں گولی لگی۔"
یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ کو اپنے زخم سے متعلق بتاتے ہوئے کہا، "خدا کا شکر ہے کہ یہ شدید نہیں۔"
دہشتگردی، شدّت پسندی اور کفر
تربیتی مرکز پر حملے کے دوران، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ترجمان، محمد خراسانی نے اے ایف پی کو ایک ٹیلی فون کال میں اس حملے کی ذمّہ داری قبول کی۔
اس نے پاکستان کی انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی کے حوالے سے کہا، "ہمارے مجاہدوں نے اس عمارت پر اس لیے حملہ کیا کیوں کہ وہ آئی ایس آئی کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔"
سیاسی اور مذہبی شخصیات نے وسیع پیمانے پر اس حملہ کی مذمّت کی۔
وزیرِ اعظم شاہد خاقان عبّاسی نے ایک میڈیا بیان میں کہا، "حضرت محمّدؐ کے ولادت کے مبارک دن ہونے والے اس حملے کی شدید مذمّت کی جاتی ہے؛ لیکن قوم دہشتگردی اور شدّت پسندی کے خلاف ثابت قدمی سے قائم ہے۔"
عالمِ دین طاہرالقادری نے کہا، "دہشتگردوں نے حضرت محمّدؐ کی ولادت کے اس ۔۔۔ بابرکت روز بے گناہ طالبِ علموں کو نشانہ بنایا۔ [وہ] کسی رعایت کے سزاوار نہیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیئے۔"
عمدہ
جوابتبصرے 1