سلامتی

طلباء کا دہشت گردوں کے احکامات ماننے سے انکار، پشاور کے ادارے پر حملے کے بعد کلاسوں میں واپسی

از عدیل سعید

پشاور میں پولیس حکام اور ایگریکلچر سروس اکیڈمی کا تدریسی عملہ 6 فروری 2018 کو کلاسیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [ایگریکلچر سروس اکیڈمی]

پشاور میں پولیس حکام اور ایگریکلچر سروس اکیڈمی کا تدریسی عملہ 6 فروری 2018 کو کلاسیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [ایگریکلچر سروس اکیڈمی]

پشاور -- پشاور کے ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، جس کا نام بدل کر ایگریکلچر سروسز اکیڈمی (اے ایس اے) رکھ دیا گیا ہے، کے طلباء و طالبات اور تدریسی عملے نے گزشتہ دسمبر میں خونریز دہشت گرد حملے کے بعد 6 فروری کو علمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔

1 دسمبر کو اکیڈمی میں دہشت گرد گھس آئے تھے، اور آٹھ طلباء اور ایک سیکیورٹی گارڈ کو ہلاک اور 37 سے زائد افراد کو زخمی کر دیا تھا۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دہشت گردوں، بشمول خودکش بمباروں، نے خود کو برقعوں میں چھپایا ہوا تھا انہوں نے فائر کھول دیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں ہلاک کر دیا تھا۔

ویٹرنری سائنسز میں سالِ سوم کے طالب علم، احمد لال بادشاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمیں خوشی ہے کہ ہمارا ادارہ دوبارہ کھل گیا ہے اور کلاسیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔"

یکم دسمبر 2017 کو پشاور میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستانی رضاکار ایک طالب علم کو ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے نکالتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

یکم دسمبر 2017 کو پشاور میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستانی رضاکار ایک طالب علم کو ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے نکالتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

یکم دسمبر کو پشاور میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی جانب سے ایک حملے کے بعد پاکستانی سپاہی ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں گشت کرتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

یکم دسمبر کو پشاور میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی جانب سے ایک حملے کے بعد پاکستانی سپاہی ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں گشت کرتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

ضلع ٹانک، خیبرپختونخوا (کے پی) کے مکین، بادشاہ، جو کہ قتلِ عام کے دوران وہاں موجود تھے، نے کہا، "اگرچہ حملے نے ہمارے ذہنوں اور روحوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، یہ ہماری علم حاصل کرنے اور تعلیم میں کمال پر پہنچنے کی آرزو کو ختم نہیں کر سکا۔"

انہوں نے کہا، "جب فائرنگ شروع ہوئی میں اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ یہ بہت خوفناک لمحہ تھا۔ ہر کوئی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔"

بادشاہ نے کہا کہ انہوں نے گولیوں سے بچنے کے لیے چار دیواری پھلانگی تھی، جس سے ان کی دائیں ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔

'دہشت گرد ہمیں خوفزدہ نہیں کر سکتے'

بادشاہ نے کہا، "کلاسوں کے دوبارہ شروع ہونے کا سننے کے بعد میرے والدین میری سلامتی کے متعلق بہت فکرمند تھے، لیکن آخرکار مجھے واپس جانے دے دیا۔"

انہوں نے کہا، "طالبان نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے سے خوفزدہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر خوفناک ترین حملہ -- جس میں 140 سے زائد قیمتی جانیں گئی تھیں، زیادہ تر طلباء و طالبات تھے -- والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے نہ روک سکا۔"

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کی مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ویٹرنری کے سالِ سوم کے طالب علم، احتشام الحق نے کہا کہ وہ خوش قسمت تھے کہ یکم دسمبر کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بچ نکلے۔

انہوں نے کہا کہ اب، وہ خوش ہیں کہ کلاسوں میں واپس جا رہے ہیں، لیکن "اپنے شہید ہونے والے ساتھیوں کو نہ دیکھ کر دکھی ہیں۔"

جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک، ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والا زراعت کا طالب علم بلال احمد ان کا گہرا دوست تھا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب میں نے اپنے گہرے دوست کی نشست خالی دیکھی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہمیں اپنے ان ساتھیوں کی کمی محسوس ہوتی ہے جنہوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔"

انہوں نے کہا، "وقت ہمارے زخموں کو بھر دے گا، لیکن ایک بات واضح ہے: مٹھی بھر دہشت گردوں کے ایسے بزدلانہ فعل ہمیں ڈرا نہیں سکتے اور ہم کسی بھی قیمت پر حصولِ علم جاری رکھیں گے۔"

سیکیورٹی میں اضافہ

اے ایس اے کے پرنسپل ملک ذوالفقار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کلاسیں دوبارہ شروع ہونے کے پہلے روز طلباء و طالبات کے حوصلے بلند تھے،" انہوں نے مزید کہا کہ کلاسوں کے پہلے روز 300 کی بھرپور تعداد میں سے تقریباً 90 طلباء و طالبات حاضر تھے۔

انہوں نے کہا، "ہمارے ادارے میں طلباء و طالبات کی اکثریت اقامتی ہے، اور جو دوردراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ ابھی آ رہے ہیں، اس لیے [اس تعداد میں] آئندہ روز میں اضافہ ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ پہلے روز طلباء و طالبات جمع ہوئے اور انہوں نے دسمبر میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے قرآن خوانی کی۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے محافظوں کی تعداد چار سے بڑھا کر دس کر دی ہے۔ یہ اسکولوں کی چار دیواری کو اونچا کرنے اور اسے زیادہ حفاظت کے لیے دوبارہ ڈیزائن کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ گفتگو بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ طلباء و طالبات اور عملے کے کسی بھی صدمے سے باہر آنے کے لیے مشاورت کا انتظام کرنے کے لیے کے پی محکمۂ صحت کے ساتھ کام بھی کر رہی ہے۔

ذوالفقار نے کہا کہ اسکول حملے کا نشانہ بننے والوں کے اعزاز میں کیمپس پر ایک یادگار بھی تعمیر کرے گا۔

انہوں نے کہا، "ہم اپنے ان طلباء و طالبات اور عملے کے ارکان کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے شہادت پائی اور انہیں اپنی پوری زندگی یاد رکھیں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500