اسلام آباد -- پاکستان کے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے سوموار (9 اکتوبر) کے روز اسلام آباد میں ایک ریلی نکالی جس میں حکومت سے انگریز دور کے برطانوی قوانین کو ختم کرنے اور نیم خود مختار خطے کو باقی ماندہ ملک میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
فاٹا میں سات ایجنسیوں، جن کی آبادی تقریباً 5 ملین نفوس پر مشتمل ہے، زیادہ تر نسلی پشتون ہیں، ابھی تک صدیوں پرانے قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جسے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کہا جاتا ہے۔
اس میں اجتماعی سزا کی روایت شامل ہے، جو اربابِ اختیار کو افراد کے جرائم کے بدلے پورے قبائل کو ذمہ دار ٹھہرانے کے قابل بناتی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے ایف سی آر کو ختم کرنے اور خطے میں قومی قوانین لاگو کرنے کے لیے اصلاحات کی منظوری دے دی ہے، جہاں کبھی عسکریت پسند آزادی سے سرگرم ہوا کرتے تھے۔
لیکن سیاسی چپقلش کی وجہ سے تبدیلیوں میں تاخیر ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے جو اگلے سال کی وقت ہونے ہیں۔
ریلی کے مقررین میں سے ایک اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما، میاں افتخار حسین نے کہا، "ہم یہاں حکومت پر دباؤ ڈالنے آئے ہیں کہ وہ ایف سی آر قانون کو ختم کرے اور پاکستانی عدالتوں کے دائرۂ کار کو فاٹا تک وسیع کرے۔"
جب 2،000 تک کی تعداد میں قبائلی "گو ایف سی آر گو" اور "ہم فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں" کے نعرے لگا رہے تھے تو افتخار حسین نے کہا، "90 فیصد سے زیادہ قبائلی افراد قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا بھی چاہتے ہیں۔"
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی قانون ساز شہاب الدین خان نے کہا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالنا جاری رکھیں گے جب تک کہ ایف سی آر کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور قبائلی علاقہ جات کو مکمل طور پر باقی ماندہ پاکستان کے ساتھ نہیں ملا دیا جاتا۔