پشاور -- محض نو سال کی عمر میں، ابراہیم غفار کی زندگی بہت مشکل تھی۔
زامونگ کور، خیبرپختونخوا (کے پی) میں بچوں کے تحفظ کے لیے مصروفِ عمل ایک ترقیاتی ادارے، کے ایک انتظامی افسر سید قیصر علی شاہ نے کہا، "اس کے والد کی وفات اور والدہ کی دماغی بیماری کی شکل میں ذلت بھری غربت اور بری قسمت نے ابراہیم غفار کو 'لاوارث بچہ' بنا دیا تھا۔"
قیصر نے کہا کہ گلیوں میں، ابراہیم کو حشیش کے نشے کی لت لگ گئی اور سماجی تنہائی کی وجہ سے وہ مجرموں یا انتہاپسندوں کے ہتھے چڑھنے کی زد میں آ گیا تھا۔
لیکن زامونگ کور کی جانب سے مدد کے ساتھ، ابراہیم کی قسمت نے ایک موڑ کاٹ لیا ہے۔
بغیر کسی تعلیمی بنیاد کے، ابراہیم اب زامونگ کور پر کنڈرگارٹن میں زیرِ تعلیم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
قیصر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ نومبر 2015 میں کے پی حکومت کی جانب سے قائم کردہ، پشاور کا زامونگ کور جو کہ لاوارث بچوں کا ایک گھر ہے لاوارث بچوں کی ایک باوقار طریقے سے بحالی کے لیے وقف ہے۔
"اپنے خصوصی تعلیمی پروگرام اور نفسیاتی و سماجی معاونت کی وجہ سے یہ ایک منفرد منصوبہ ہے،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "یہاں داخل بچوں کو 'گلی کے بچے' کی بجائے 'ریاست کے بچے' کہا جاتا ہے۔"
بچوں کو انتہاپسندی، جرم سے بچانا
قیصر نے کہا، "گلیوں میں لاوارث پھرنے والے بچے مجرمانہ سرگرمیوں، بشمول دہشت گردی جیسے مکروہ ترین جرائم میں ملوث ہونے کے لیے انتہائی زد پذیر ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ ان بچوں کو نظرانداز کرتا ہے، تو بہت سی بری نظریں ان پر جمی ہوتی ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ہمارے معاشرے میں، جہاں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، ایسے بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں تاکہ انہیں دہشت گردوں کے ہتھیار بننے سے بچایا جائے۔"
ابراہیم کے معاملے میں، زامونگ کور کے ایک نمائندے نے اسے ایک گلی میں دیکھا اور اسے اس کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے اجازت دیئے جانے کے بعد سال کے شروع میں مرکز پر لایا گیا۔ وہ غالباً کم از کم پانچ برس یہاں قیام کرے گا۔
قیصر نے کہا، "اگر ابراہیم کو زامونگ کور نہ لایا گیا ہوتا، تو وہ [اپنی نشے کی لت] اور خود کو درپیش محرومی کی وجہ سے [دیرپا نفسیاتی مسائل] کا شکار ہو جاتا۔"
ابراہیم مہینے میں ایک بار اور عید جیسے خصوصی مواقع پر پشاور کے مضافات میں اپنی والدہ سے ملنے گھر جاتا ہے۔
اسے مرکز پر جو ماحول ملتا ہے اور جو سلوک اس کے ساتھ کیا جاتا ہے اسے وہ پسند ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے ابراہیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اگرچہ مجھے اپنے گھر کی یاد آتی ہے، میں یہاں خوش ہوں کیونکہ مجھے تعلیم دی جا رہی ہے اور بہتر زندگی گزار رہا ہوں۔"
گلی کی زندگی کے اثرات کو زائل کرنا
پورے پاکستان میں اپنے دفاتر رکھنے والی ایک این جی او، سوسائٹی برائے تحفظ حقوقِ اطفال کے مطابق، "اندازاً 1.2 سے 1.5 ملین بچے پاکستان کے بڑے شہروں اور شہری مراکز کی گلیوں میں پھرتے ہیں، جو کہ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ مجرد سماجی گروہ کو تشکیل دیتے ہیں۔"
زامونگ کور کے وارڈن، شہزاد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہاں داخل بچوں کی ایک بڑی تعداد تشدد کی طرف رجحان رکھتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ زامونگ کور کے عملے میں ایک ماہرِ نفسیات داخلے کے عمل کے دوران بچوں کے پرتشدد رجحانات کو جانچتا ہے اور حسبِ ضرورت صلاحکاری فراہم کرتا ہے۔
شہزاد نے کہا، "گلیوں کا ماحول انتہائی ناموافق ہے اور گلیوں میں پھرنے والے بچوں کو نہ صرف تمباکو نوشی اور منشیات کی لت جیسی عادات کی طرف لے جاتا ہے بلکہ انہیں جرائم میں بھی ملوث کروا دیتا ہے۔"
دیکھ بھال کو مزید بچوں تک وسیع کرنا
زامونگ کور کے ڈائریکٹر میجر (ر) حارث خان خٹک نے آن لائن پوسٹ کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ جب پشاور میں زامونگ کور بنایا گیا تھا، اس نے گلی کے 1،000 بچوں کو داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔
انہوں نے کہا، "جب ہم نے زامونگ کور کا آغاز کیا، یہاں 25 بچے تھے اور اب 130 بچے ہیں۔"
خٹک نے کہا کہ تنظیم کے پاس 1،000 بچوں کو گلیوں سے نکالنے کے ہدف تک پہنچنے کے لیے کافی جگہ ہے، جو کہ 216 فلیٹوں پر مشتمل ہے۔ یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال سے آغاز کرتے ہوئے یہ 1،000 بچوں کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
خٹک نے کہا کہ ہر بچے کو داخل کرنا ایک گراں بار طریقۂ کار ہے جو رشتہ داروں کی رضامندی کا متقاضی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ بچوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بحال کرنے کے لیے تمام دشواریوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
لڑکیوں کو داخل کرنا ایک حساس معاملہ ہے جو لڑکیوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے اضافی وقت کا تقاضہ کرتا ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "جولائی سے آغاز کرتے ہوئے، زامونگ کور گلیوں میں پھرنے والی بچیوں کو داخل کرنے کے انتظامات کرے گا۔"
قیصر نے کہا کہ کے پی کی حکمران جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین، عمران خان صوبے کے تمام 26 اضلاع میں زامونگ کور قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
حساس ترین پاکستانیوں کا تحفظ کرنا
کے پی سول سوسائٹی نیٹ ورک کے رابطہ کار، تیمور کمال نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گلیوں میں پھرنے والے بچے جنسی بدسلوکی کے لیے انتہائی حساس ہیں اور ایسے شکاریوں کے لیے بھی جو انہیں جیب تراشی اور دیگر چوری چکاری کے جرائم کی تربیت دیتے ہیں۔ جرائم کی ایسی زد پذیری انہیں بلوغت میں پرتشدد اور انتہاپسند بننے کی طرف لے جا سکتی ہے۔"
کمال نے زامونگ کور کے اقدام کے لیے خراجِ تحسین پیش کیا لیکن کہا، "ہمارے معاشرے میں گلیوں میں پھرنے والے بچوں کی تعداد کے مقابلے میں 1،000 بچوں کو بچانے کا ہدف انتہائی کم ہے۔"
تحفظِ اطفال کے لیے مصروفِ عمل ایک اور این جی او، آزاد فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے، تحفظِ اطفال کے ایک کارکن، عمران تکھر نے کہا، "صرف کراچی ہی کی گلیوں میں تقریباً 7،000 بچے پھرتے ہیں۔"
تکھر نے کہا، "زامونگ کور ایک اچھا اقدام ہے، لیکن ہمیں معاشرے کے حساس ترین حصے کے تحفظ کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پورے ملک میں لاوارث پھرنے والے بچوں کی تعداد کے درست تعین کے لیے ایک سروے کروایا جائے۔
انہوں نے کہا، "جو اعداد و شمار ہم ذرائع ابلاغ کو بتاتے ہیں وہ این جی اوز کی جانب سے سروے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی سرکاری کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔"
اچھی کوشش ہے، اسے سراہنے اور مزید اعلیٰ پیمانے پر کام کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
جوابتبصرے 1