کوئٹہ -- پاکستان کی وزارِت خارجہ نے بدھ (21 جون) کو کہا کہ پاکستان نے ایک بغیر پائلٹ کے ایرانی ڈرون کو اپنے علاقے میں، پنجگور، بلوچستان صوبہ میں مار گرایا ہے۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی کے بغیر پائلٹ کے جہاز نے پیر (19 جون) کو سرحد پار کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "ڈرون کو پاکستانی فضائیہ نے نشانہ بنایا کیونکہ یہ غیر شناخت شدہ تھا اور پاکستانی علاقے میں تقریبا 3 سے 4 کلومیٹر اندر اڑ رہا تھا"۔
اس میں کہا گیا کہ "پاکستان نے اس ڈرون کو گرائے جانے کے بارے میں معلومات پہلے ہی ایران کے حکام کے ساتھ سانجھی کی ہیں اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ڈرون کو ہماری سیکورٹی فورسز نے نشانہ بنایا کیونکہ یہ غیر نشان زدہ تھا اور اس کی پرواز کے بارے میں پہلے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں"۔
ایران کا سیستان - بلوچستان صوبہ جو کہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ سرحد رکھتا ہے، حالیہ مہینوں میں ایرانی افواج اور مسلح ملیشیاء گروہوں میں مسلح جھڑپوں کا شکار رہا ہے۔
تہران نے اپریل میں اسلام آباد سے مسلح "حکومت مخالف" عناصر کی طرف سے مبینہ طور پر سرحد پار چھاپہ مارنے پر احتجاج کیا تھا جن کے نتیجہ میں ایران کے کم از کم دس سیکورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کے حکام اور سیکورٹی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعہ سےعلاقے میں ایران کے "دوہرے کھیل" کے بارے میں دوبارہ سے تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
'ایرانی جارحیت حل نہیں ہے'
اسلام آباد میں وزارتِ دفاع کے ایک اعلی اہلکار محمد بلال نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمیں مجموعی ایرانی جارحیت کے بارے میں انتہائی تشویش ہے۔ پاکستانی کبھی بھی کسی ملک کو اس کی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دے گا"۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستانی سرحد پر ایران کی طرف سے جاسوسی کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ایران دو طرفہ معاملات میں قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کر رہا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "جامع سیکورٹی میکانزم ۔ ۔۔ کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔۔۔ کوئی جاسوسی کی مہم یہاں"۔
انہوں نے کہا کہ "ہمارے جے- ایف 17 تھنڈر جنگی جہاز کو بلوچستان کی پنجگور ڈسٹرکٹ میں ڈرون کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کا ملبہ بعد میں، ڈسٹرکٹ کے نواح میں پیروم سے ملا"۔
بلال نے کہا کہ "پاکستان کی ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے اور ہم نے اپنے علاقے میں سرحدی سیکورٹی کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہے۔ لاحاصل جاسوسی کی کوششوں پر انحصار کرنے کی بجائے، ایرانی حکومت کو اپنی سرحد پر سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہیے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم کسی بھی صورت میں اپنی ملکی حفاظت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی افواج کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ایرانی جارحیت کسی بھی تنازعہ کا حل نہیں ہے۔ ایران کو بین الاقوامی سرحدوں سے متعلقہ قواعد کا احترام کرنا چاہیے"۔
بڑھتی کشیدگی
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے وزارت داخلہ کے سینئر اہلکار محمد عابد نے کہا کہ ایران کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایرانی کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار نہیں دینا چاہیے۔ یہ ایرانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو طرفہ تعلقات میں بین الاقوامی قواعد کی پاسداری کرے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم علاقے میں امن اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ایران بھی، بے بنیاد الزامات لگانے کی بجائے، دیرپا امن کے ایجنڈا کی پیروی کرے گا"۔
عابد نے کہا کہ "سرحد پار تشدد میں اضافے سے ایران اور پاکستان میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے اور ایرانی افواج کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ کرنے کے بار بار دہرائے جانے والے واقعات کے باعث ایرانی جارحیت نمایاں ہوئی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ یہ اپنے ہی علاقے میں تشدد کو روکنے میں ایران کی نااہلی یا تامل ہے۔ ایران کا الزام لگانے کا کھیل اور رویہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ زمینی حقائق پر توجہ نہیں دے رہا ہے"۔
علاقائی امن کے لیے سفارت کاری انتہائی ضروری
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دفاع اور سیکورٹی کے سینئر تجزیہ نگار میجر (ریٹائرڈ) محمد عمر نے کہا کہ "پاکستان اور ایران دونوں کو علاقے میں امن کے لیے مسلسل سفارتی کوششیں کی ضرورت ہے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایران کی توجہ اپنی ترجیحات پر ہے اور وہ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے درکار ضروری دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ امن اور استحکام کے لیے، باہمی دلچسپی کے معاملات سے نپٹتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنا ضروری ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "یہ درحقیقیت ایک بہت بڑی خلاف ورزی ہے کہ ایرانی ڈرون پاکستان کے علاقے میں جاسوسی کرتا ہوا ملا ہے۔ فوری پاکستانی جواب نے ظاہر کر دیا ہے کہ پاکستان نے اپنی زمین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ایران اگر یہ سوچتا ہے کہ پاکستان اس خلاف ورزی پر خاموش رہے گا تو وہ خواب دیکھ رہا ہے"۔
ایک غیر معمولی صورتحال
اسلام آباد کے دفاعی تجزیہ نگار محمد راشد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایران کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی جارحیت کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہ ایران کے لیے زیادہ بدنظمی کی صورت حال پیدا کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان اب ایران کے بارے میں اپنی پالیسی پر دوبارہ سے غور کرنے کے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچ رہا ہے"۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ پاکستان اور ایران میں سرحد پار کشیدگی دونوں ممالک کو ایک غیر معمولی صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔ "ایران کی فوج ہو سکتا ہے کہ صورت حال کو سنبھالنے کے قابل نہ ہو کیونکہ وہ پہلے ہی شام میں اور دوسرے چند خلیجی ممالک میں جنگ کر رہی ہے"۔
راشد نے کہا کہ "ایران کو سیستان-بلوچستان صوبہ اور دوسرے علاقوں میں اندرونِ ملک پیدا ہونے والے جس تنازعہ کا اس وقت سامنا ہے، وہ ملک کی اندرونی سیکورٹی کو متاثر کر رہا ہے۔ عسکریت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی بنائے بغیر، پاکستان اور ایران کی سرحد سے جڑے ہوئے علاقوں میں امن بحال نہیں ہو سکتا"۔