اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو وسیع کرنے اور اپنے غلبے کو قائم کرنے کی کوشش میں، ایران کی اسلامی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی) پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہے تاکہ وہ شام میں اس کے مفادات کے لیے جنگ کریں۔ ماہرین نے یہ بات دیارونا کو بتائی۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی زینبیون بریگیڈ سے ثابت ہے، جس کے عناصر کو آئی آر جی سی تربیت دیتی اور مسلح کرتی ہے اور پھر انہیں شام میں منتقل کر دیا جاتا جہاں وہ آئی آر جی سی سے متعلقہ دوسرے دھڑوں کے ساتھ اور شام کی حکومت کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں۔
زینبیون بریگیڈ کو پہلی بار دمشق میں فوجی مہم کے علاقوں اور اس کے محاصرے اور حلب میں 2014 کے وسط میں دیکھا گیا۔ یہ بات قاہرہ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالبِعلم شییار ترکو نے بتائی جو کہ آئی آر جی سی کی مالیات کی بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔
انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ اس کے فوراً بعد، سوشل میڈیا پر اس بریگیڈ کے شام میں شامی حکومت اور اس کے ساتھی عسکریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی خبریں گردش کرنا شروع ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ "2015 سے اب تک، اس کے حامیوں کے سوشل نیٹ ورکنگ کے صفحات نے شام میں اس کی ہلاکتوں کے بارے میں تازہ ترین خبریں شائع کرنی شروع کر دی ہیں۔ جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی بجائے ایران میں دفن کیا گیا"۔
ترکو نے کہا کہ "زینبیون بریگیڈ پاکستانی شعیوں کو ایک مسلح گروہ ہے جن میں سے اکثریت کو مغربی پاکستان کے علاقوں سے بھرتی کیا گیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے پنجاب کے غربت زدہ علاقوں، صوبہ سندھ کے دوسرے حصوں اور چین کی سرحد کے ساتھ کے شمالی علاقوں سے آئے ہیں۔
ترکو نے کہا کہ ان علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی آر جی سی نے اس اپنی بھرتی کی مہمات میں اس کا استحصال کیا ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا دی ہے اور پاکستان کے شعیوں میں خوف کا احساس پیدا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان اور دوسرے سنی انتہاپسند گروہوں کی طرف سے شعیوں پر حملوں نے اس خوف کے احساس کو بڑھایا ہے اور آئی آر جی ایس کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو قبائلی افراد پر ان کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہوئے وسیع کرنے کے راستے کھولے ہیں۔
ترکو نے مزید کہا کہ زینبیون بریگیڈ وہ واحد فوجی بریگیڈ یا مسلح گروہ نہیں ہے جسے آئی آر جی ایس نے پاکستان میں بنایا ہے مگر اسے بظاہر غیر ملکی مہمات اور خصوصی طور پر شام کی جنگ کے واحد مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی آر جی ایس کے حمایت یافتہ گروہوں کے پاکستان اور ایران میں بہت سے کیمپ ہیں اور "یہ بات ناممکن نہیں ہے کہ زینبیون بریگیڈ کے عناصر کو بیرونی مہمات کے ان گروہوں میں سے منتخب کیا گیا ہو"۔
لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ مماثلت
مڈل ایسٹ سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریجک اسٹیڈیز کے محقق فتح ال سید جو کہ ایرانی امور میں مہارت رکھتے ہیں نے کہا کہ زینبیون بریگیڈ اور آئی آر جی ایس کی طرف سے دوسرے ممالک میں بنائے جانے والے گروہ لبنان کی حزب اللہ جیسے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "دراندازی کے ہتھکنڈے ایک جیسے ہیں، محرک ایک جیسے ہیں اور مقاصد بھی ایک جیسے ہیں۔ واحد فرق کا تعلق ہر ملک کے نظریاتی اور سماجی فرق کو مدِنظر رکھنا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ان مسلح گروہوں کو بنانے کا واحد مقصد آئی آر جی ایس کے کنٹرول کو ان ممالک پر سخت کرنا ہے جہاں سے انہیں بھرتی کیا گیا ہے اور انہیں شام جیسے ہاٹ سپاٹس پر آئی آر جی ایس کی طرف سے پراکسی وار میں ملوث کرنا ہے۔
ال سید نے کہا کہ "ایران اپنی فوج کو براہ راست جنگ میں ملوث کیے بغیر ان دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اسے صرف تربیت اور فوجی مہمات کی براہ راست نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے"۔
پاکستانیوں کو اس بریگیڈ کی صفوں میں لڑنے کے لیے اکسانے کے لیے، ایران نے شہریت کے قانون کی شق 980 میں ترمیم کی ہے جس کے تحت ان لوگوں کو شہریت دی جا سکتی ہے جنہوں نے ایران میں عوامی مفادات کے لیے خدمات یا قابلِ قدر مدد فراہم کی ہو۔
انہوں نے کہا کہ "2016 میں ایک اور ترمیم متعارف کروائی گئی جس کے تحت ایسے غیر ایرانیوں کی بیویوں اور بچوں کو، جو ایران کے لیے مہم سر انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے ہوں، شہریت دی جا سکتی ہے"۔
ال سید نے کہا کہ کہ ایران کا مقصد "ایسے علاقوں میں جہاں اسے رسائی مل سکی ہے اور ان برادریوں میں جہاں وہ دراندازی کے قابل ہو گیا ہے، فرقہ واریت کو پھیلانا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "یہ اسے ان علاقوں میں رفتہ رفتہ کنٹرول حاصل کرنے کے قابل بنا دیتا ہے جہاں وہ فرقہ ورانہ بحران کے دوران داخل ہوتا ہے اور اسے اپنے ساتھ ملحق گروہوں کو مکمل طور پر فرقہ ورانہ بنیاد پر کنٹرول کرنے قابل بھی بنا دیتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی بریگیڈ کی شام کی جنگ میں شمولیت نے "تنازعہ کے فرقہ ورانہ کردار کو بڑھا دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں اور اس کے دورانیے میں اضافہ ہو گیا ہے"۔
مذہبی حساسیت سے فائدہ اٹھانا
فری سیرین آرمی کے ایک افسر صالح ال افیسی جو کہ دیہی حلب میں تعینات ہیں، نے کہا کہ اپریل 2016 میں حلب کی جنگوں کے دوران، حزبِ مخالف کے دھڑوں نے حکومت کی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے والے 12 افراد کو گرفتار کیا جو کہ پاکستانی شہری اور زینبیون بریگیڈ کے ارکان نکلے۔
انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ حزبِ مخالف کے جنگجوؤں نے آغاز میں یہ سمجھا کہ وہ لبنان کی حزب اللہ کی صفوں میں لڑنے والے پاکستانی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "اپنی وردیوں پر انہوں نے جو بیج پہن رکھنے تھے ان پر بنے ہوئے نشان حزب اللہ سے ملتے جلتے تھے اور ان پر زرد پس منظر کے ساتھ ویسی ہی تصویر تھی اور صرف لکھائی ہی فرق تھی۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق ہو گئی اور گروہ نے انکشاف کیا کہ انہیں پاکستان میں تربیت فراہم کی گئی تھی اور پھر انہیں شام منتقل کیا گیا تاکہ وہ 20,000 پاکستانی روپوں (190 ڈالر) ماہانہ کے عوض شام میں لڑیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ شام میں "ان کا اولین اور سب سے اہم مقصد شعیوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا ہے" کیونکہ انہیں قائل کیا گیا تھا کہ شام کے حزبِ مخالف کے دھڑے تمام شعیہ مزارات کو تباہ کرنا اور اس فرقے کے ارکان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔
بخاری صاحب کیا یہ تجزیہ کا اسلوب ہے؟؟؟؟۔ میرا خیال ہے کہ یہ تعلیم ہے جو ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے۔ یہ تفویض شدہ جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ حقیقی علم حاصل کریں۔
جوابتبصرے 2
اسی طرح کا ایک ریسرچ پیپر داعش اور طالبان پر بھی بناو اور پوسٹ کرو اگر تم اتنے ہی حق پرست ہو ورنہ کسی گندے نالے میں جا کر ڈوب مرو بے شرم کہیں کے - اگر سعودی و عرب ممالک یہی بھرتیاں اپنے لیئے کریں تو سب ٹھیک اور اگر ایران کرے تو مداخلت و دہشت گردی ؟؟؟؟ لعنت اللہ ج اور اس کے رسول ص کی تم پر
جوابتبصرے 2