سلامتی

احسان اللہ احسان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے اسلام اور پاکستان دشمن ہونے کا انکشاف

از محمد آہل

احسان اللہ احسان (دائیں) کو بنا تاریخ کے ایک تصویر میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرحوم سربراہ حکیم اللہ محسود (دائیں) اور خالد بلتی عرف محمد خراسانی، جو کہ احسان سے پہلے دہشت گردوں کے ترجمان تھے، کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ [تصویر بشکریہ محمد آہل]

احسان اللہ احسان (دائیں) کو بنا تاریخ کے ایک تصویر میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرحوم سربراہ حکیم اللہ محسود (دائیں) اور خالد بلتی عرف محمد خراسانی، جو کہ احسان سے پہلے دہشت گردوں کے ترجمان تھے، کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ [تصویر بشکریہ محمد آہل]

پشاور -- تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان لیاقت علی، عرف احسان اللہ احسان کی جانب سے پاکستانی عسکریت پسندوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

لگ بھگ ایک دہائی تک کالعدم تنظیموں کی زبانی وکالت کرنے کے بعد، احسان، جو کہ ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے جماعت الاحرار (جے اے) کا بانی رکن بھی تھا، نے پاکستانی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دیگر عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا۔

اپریل میں جاری ہونے والے ایک سنگین اعترافی بیان میں اس نے کہا کہ ٹی ٹی پی، جے اے اور دیگر عسکریت پسند گروہ مذہب کو لوٹ مار کرنے، دھوکہ دینے اور اسلام کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔

احسان نے کہا کہ وہ عسکری کمانڈروں سے متنفر ہو گیا تھا جو اسلام کو مسخ کرتے ہیں اور پراپیگنڈا کر کے نوجوانوں کے ہاتھوں بے گناہوں کو ذبح کرواتے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے 26 اپریل کو جاری ہونے والی اعترافی بیان میں احسان نے کہا، "نام نہاد 'جہادیوں' نے اسلام کے نام پر لوگوں، خصوصاً نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے۔ وہ کبھی بھی اسلام کی حقیقی روح کی پیروی نہیں کرتے اور نہ ہی ان معیارات پر پورا اترتے ہیں جس کا وہ دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں۔"

اس نے کہا کہ نوجوانوں اور دیگر عام شہریوں کے خلاف ان کے جرائم، جیسے کہ "عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنا اور اسکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کرنا"، اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔

'دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکری گروہوں کی سفاکی اور غیر اسلامی افعال کے متعلق احسان کے حیرت انگیز انکشافات میں گروہوں کے ارکان میں وزن پایا جاتا ہے، جو پہلے ہی الگ ہو چکے ہیں اور پاکستانی-افغانی سرحد کے ساتھ روپوش ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اعتراف دہشت گردوں کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں، "جہاد" کے تصور کو غلط استعمال کرتے ہیں اور دونوں ممالک میں معصوم نوجوانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات بارآور ہو رہے ہیں۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری دفاع، پشاور کے بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔"

انہوں نے کہا، "حکام کے سامنے احسان اللہ احسان کا ہتھیار ڈالنا بہت اہم ہے؛ وہ ایک اہم طالبان کمانڈر تھا اور پاکستان کے مستحکم علاقوں اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے اہم مخبریاں کر سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند برسوں سے فرار ہو رہے ہیں اور پاکستان یا افغانستان میں ان کے رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

"مزید بہت سے اس کے نقشِ قدم پر چلیں گے،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "احسان نے، دوسرے بہت سوں کی طرح، ہتھیار ڈالنے کا انتخاب کیا۔"

ہتھیار ڈالنے کے متعلق انہوں نے کہا، "یہ عسکریت پسندوں کے پورے ڈھانچے کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔"

احسان کا ویڈیو پیغام شاہ کے اندازے کی تائید کرتا لگتا ہے۔

اس نے کہا، "جب پاکستانی فوج نے پارچا اور لال پورہ نے [جے اے] کے کئی کیمپوں کو تباہ کیا اور ان کے بہت سے جنگجوؤں کو ہلاک کیا، ان کے حوصلے پست ہیں۔"

اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "قیادت ہل کر رہ گئی ہے۔ کیمپوں میں بہت سے افراد نکلنا چاہتے ہیں۔ میں انہیں ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دیتا ہوں۔"

احسان نے پاکستانی نوجوانوں کو یہ پیغام دیتے ہوئے بات مکمل کی کہ سوشل میڈیا پر عسکریت پسندوں کی بھرتی میں مت پھنسیں۔

احسان نے عسکریت پسندوں کا اصل چہرہ دکھا دیا

لاہور سے ایک دفاعی تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف پنجاب سے ریٹائرڈ ہو کر تدریس جاری رکھنے والے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ احسان کا ہتھیار ڈالنا اور دوسروں کو اپنے پیچھے چلنے کو کہنا ایک "بڑی کامیابی" کی نمائندگی کرتا ہے۔

رضوی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وہ ایک اہم شخصیت تھا۔ وہ مزید مخبریاں دے گا۔ وہ ٹی ٹی پی اور [جے اے] دونوں کے ڈھانچوں کو جانتا ہے اور حتیٰ کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو بھی جانتا ہے۔ اس کا تعاون [پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو] دہشت گردوں کے ڈھانچے تک مزید رسائی فراہم کرے گا۔"

انہوں نے کہا، "احسان کے ٹی ٹی پی اور جے اے کی قیادت پر الزامات کافی طاقتور ہیں۔ وہ معصوم پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک نعمت ہوں گے جنہیں اسلام اور 'جہاد' کے نام پر تقسیم کیا گیا تھا۔ اب جبکہ انہوں نے عسکریت پسندوں کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے ۔۔۔ بہت سے لوگ خود کش بم دھماکوں کے لیے رضاکار نہیں بنیں گے۔"

پشاور یونیورسٹی کے ایک ماہرِ عمرانیات اور ادارہ برائے مطالعاتِ امن و تنازعات کے ڈائریکٹر، پروفیسر احمد چترالی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔"

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے استاد سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ احسان کا ہتھیار ڈالنا اور اعتراف "اہم" ہیں۔

انہوں نے کہا، "وہ ان تنظیموں [ٹی ٹی پی، جے اے، القاعدہ اور پنجابی طالبان] کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ وہ ان گروہوں کو ختم کرنے میں اہم ہو گا۔"

دریں اثناء، سوشل میڈیا پر بہت سے پاکستانیوں نے ایک ایسے شخص کے لیے برے جذبات کا اظہار کیا ہے جو برسوں تک سرِ عام دہشت گردی کی حمایت کرتا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے اعتراف کی جو بھی اہمیت ہو، اس کو معافی کی پیشکش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 10

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

دہشت گردوں نے ہماری نوجواں نسل لو تباہ کر دیا ہیے ۔۔۔ احسان کا ہتھیار ڈالنا خوش آیند ہے۔۔۔

جواب

میرا نقطہ نظر مختلف ھے میرے خیال میں اسکو سیف ھاوس میں رکھنا چاھئےتھا اور میڈیا یا کسی کےسامنے شو کرنا قطعئ غلط ھے کیونکہ دھشتگرد بھت چالاک ھیں۔وہ اپنا نیٹورک اور تمام کمین گاھیں جلدی تبدیل کردینگے۔اگر اس کے معلومات پہ خاموشی سے کاروائ کیجاتی بھتر ھوتا بعد میں اسکو شو کر دیتے

جواب

حق معاف تو صرف حقدار کرسکتا ھے یاد کریں اے پی ایس پشاور والا سانحہ جس میں ایک سو چونتیس نازک کلیوں کا خون نچوڑ کر پیا گیا تھا۔ یاد ہے اس وقت کا کرب؟ سب چھوڑیں، ۔ کچھ دیر رک کر اپنی دیوار پر وہ نوشتے دیکھیے جو خود آپ نے درج کیے تھے۔ ان بچوں کا خون دیکھیے جن میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر آپ نے مطالبے لکھے تھے۔ بپھرے ہوئے لہجے پر دھیان دیجیے۔ مشتعل اسلوب پہ غور کیجیے۔ لفظ کس طرح اپنی قبائیں کتر کر دھاڑ رہے ہیں۔ ماردو، ٹانگ دو، اڑادو، برباد کر دو، نام و نشان مٹا دو، نیست و نابود کر دو ۔ یہ سب آپ ہی کا کہا اور لکھا ہے نا؟ واپس آجایئے۔ ایک سوال کا جواب دیجیے۔ آپ کو جب دکھ ملا تھا، کون اِترا اِترا کر ذمہ داریاں قبول کررہا تھا؟ آپ کی ماؤں کی آہ وفغاں پر کون مسکرارہا تھا؟ احسان اللہ احسان۔ جانتے ہیں احسان اللہ احسان کو؟ وہی جو ٹی ٹی پی کا ترجمان تھا۔ جو ٹی ٹی پی کے تار و پو بکھرنے کے بعد ٹی ٹی پی کے خراسانی دھڑے میں شامل ہوا تھا۔ وہی دھڑا جس نے کراچی ائِیرپورٹ پر آپ کو گھیر کر مارا تھا۔ پشاور میں تین بار جس نے اسکول آنے جانے والے معصوم بچوں کی وینوں پر حملے کیے تھے۔ جس نے کوئٹہ کچہری میں پورے شہر کے علم کو یکجا کر کرکے بموں سے اڑایا تھا۔ سیہون شریف میں رقص کرتی زخمی روحوں کو جس نے خون میں تڑپایا تھا ہم روئے جارہے تھے۔ دہائیاں دے رہے تھے۔ نہیں؟ مگر کیا ہوا؟ احسان اللہ احسان نے معافی مانگی، ہم نے قبول کرلی۔ کوئی فرق پڑا؟ نہیں تو۔ ہماری بھی گزر ہی رہی ہے اور وہ بھی ہمارے پہلو میں بیٹھ کر مطمئن مسکراہٹیں بکھیرتا کتنا بھلا لگ رہا ہے

جواب

بائی آپ کو فوج کی طرف سے وکالت کرنے کا کس نے کہا ہے فوج اس کا م کو آپ جیسے نام نہاد لوگوں سے بہتر جانتی ہے کہ ملک کا نظم ضبط کیسے چلانا ہے آپ لوگ تو چند پیسوں کی خاطر اپنا ایمان بھی یہود و نصارا کے پاس گروی رکھوا دیتے ہو

جواب

بات واقعی زیادہ بھروسہ نہ کرنےکی ضرورت کی ہےاور ہمیں اپنے سیکورٹی ایجنسیز پر پورا اعتماد بھی ہےجو بلا ناغہ جانوں کے نذرانے پیش کررہےہیں مگراب اس کے ساتھ ساتھ اگر انکے اکٹ کو تھوڑا جاسکتا ہے تو پھر وعدہ معاف گواہ بنا کر کام لیے جانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پہلےسے پاکستان میں یہ کام ہورہاہے بلوچستان میں ۔وہاں فراریوں کو معاف کیا جارہا ہے

جواب

bohat acha

جواب

یہ ہماری افواج کی اچھی کاوش ہے۔۔۔ لیکن اس کا یقین نہیں کیا جا سکتا، وہ ٹی ٹی پی کا ایک بڑا رہنما ہے لہٰذا کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔ اللہ پاکستانی فوج کا حامی و ناصر ہو آمین۔

جواب

Sirf india ko 1 bat bta dain k ab nai .Ab kalboshan ko phansi hoge or wo b wagha border prade ky ky doran

جواب

Well done ehsanullah Aap ke inkeshafath humary leye naye nahi en ka poora network he Jo raw ki support se en ke leye tamam maloomat dethee aur Kuch politician bi en ke agents hain khaas ka pateechar Khan Jo har waqat govt ki kamyabion pe rotha rehtha he

جواب

شاندار رپورٹنگ

جواب