پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) پولیس نے گزشتہ تین سالوں میں کھلنے والے چھہ خصوصی پولیس اسکولوں میں ابھی تک 12,400 افسران کو تربیت دی ہے جس سے پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سید فدا حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کے پی پولیس کی خصوصی تربیت کے لیے قائم کیا جانے والا پہلا ادارہ اسکول آف انوسٹیگیشن، جون 2014 میں حیات آباد، پشاور میں قائم کیا گیا تھا۔
اس وقت سے لے کر اب تک، دیگر پانچ ادارے قائم کیے گئے ہیں: ایبٹ آباد میں اسکول آف انٹیلیجنس (جولائی 2014)، نوشہرہ میں اسکول آف ایکسپلوسیو ہینڈلنگ (فروری 2015)، مردان میں اسکول آف پبلک ڈس آرڈر اینڈ راوٹ مینجمنٹ (اپریل 2015)، پشاور میں اسکول آف انفرمیشن ٹیکنالوجی (ستمبر 2015) اور پشاور میں اسکول آف ٹیکٹیکز (اگست 2015)۔
مردوں اور عورتوں کے لیے بہتر تربیت
حسین، جنہوں نے 2016 میں اندرونی احتسابی اور تربیت کے لیے ڈی آئی جی کے طور پر خدمات سر انجام دی ہیں، کہا کہ "12,400 پولیس افسران میں سے جنہیں ان اداروں میں تربیت دی گئی ہے، 460 خواتین تھیں"۔
انہوں نے کہا کہ جن پولیس افسران نے ان اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ بہت سے سیکورٹی کے نئے تصورات کے بارے میں زیادہ بہتر تربیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ان کی پیش کش کی صلاحیتوں میں بہتری آئی ہے۔ وہ خصوصی اسکولوں میں اپنے کورسز کے بعد، انٹیلیجنس جمع کرنے، تفتیش، دھماکہ خیز مواد اور عوامی انتشار کو سنبھالنے کی بنیادی باتوں سے زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ اسکول بنیادی تفتیشی صلاحیتیں، اصناف کے ردعمل والی پولیس اور بچوں کے بارے میں حساس تفتیش سکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دوسرے متعلقہ کورسز کے ساتھ دھماکہ خیز مواد کو سنبھالنے کی بنیادی اور ایڈوانس تربیت بھی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان میں سے اکثر اسکولوں کو حکومت کی طرف سے کسی اضافی فنڈز کے بغیر قائم کیا ہے۔
کے پی پولیس کےسابقہ انسپکٹر جنرل ناصر خان درانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ان تمام اسکولوں کو پولیس کی تعداد بڑھانے اور متعلقہ شعبوں میں ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ اسکولوں نے مرد و خواتین افسران کو دورکار تمام تربیت فراہم کی ہے تاکہ انٹیلیجنس اکٹھا کرنے، تفتیش اور دھماکہ خیز مواد کو سنبھالنے کے بارے میں ان کے بنیادی علم کو بہتر بنایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماہرین ان اسکولوں میں باقاعدگی سے جاتے ہیں اور تربیت حاصل کرنے والے افسران کی صلاحیتوں کو تعمیر کرنے کے حصہ کے طور پر وہاں لیکچر دیتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہیں۔
ناقابل واپسی اصلاحات
درانی نے کہا کہ "ان اسکولوں کوکے پی پولیس ایکٹ 2017 میں مناسب قانونی درجہ دیا گیا تاکہ ان ابتدائی اقدامات کو واپس ختم کیا جانا ممکن نہ ہو سکے"۔
پشاور کے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ آف پولیس اور پولیس اسکول آف انوسٹیگیشن کے سابقہ استاد، طاہر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کے پی اسکول آف انوسٹیگیشن میں پولیس افسران کو ٹیکنالوجی کے استعمال، عوامی تعلقات کو بہتر بنانے، ہاٹ سپاٹ پولیسنگ، میڈیکو-لیگل رپورٹنگ، ڈی این اے کو جمع کرنے، سیلولر فون فرانزک، انگلیوں کے نشان لینے اور دوسرے معاملات کی تربیت دی جاتی ہے"۔
خان نے مزید کہا کہ ان جدید اور خصوصی کورسز نے پولیس افسران کو تفتیش کے جدید طریقوں کو سیکھنے اور شواہد کو مناسب طور پر جمع کرنے کے قابل بنایا ہے۔
کے پی کے وزیراعلی پرویز خٹک نے 16 مارچ کو ریٹائر ہونے والے کے پی کے پولیس چیف، درانی کے لیے پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز میں منعقد کی جانے والی الوداعی تقریب میں کہا کہ "صوبے میں پولیس فورس کی تربیت بہتر ہوئی ہے جب سے کے پی بھر میں خصوصی اسکولوں کو قائم کیا گیا ہے"۔
خٹک نے کہا کہ "اس تربیت، تعداد کو بڑھانے اور صفر سیاسی مداخلت کے باعث، کے پی پولیس کا معیار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے"۔
حکام کا کہنا ہے کہ خصوصی اسکولوں کے علاوہ، پولیس کے بھرتی مراکز نے تربیتی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اپنے کورسز میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔
ڈی آئی جی فصیح الدین جو کہ ہنگو کے پولیس ٹریننگ کالج کے کمانڈنٹ ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے محرروں (افسران جو مقدمہ درج کرتے ہیں اور پولیس اسٹیشن کے اندرونی معاملات کا دھیان رکھتے ہیں) کے لیے خصوصی تربیت ڈیزائن کی ہے تاکہ انہیں شکایت درج کرنا اور ریکارڈ کو سنبھالنا سکھایا جا سکے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے عدالتوں میں کام کرنے والے پولیس افسران کے لیے بھی کورس ڈیزائن کیے ہیں"۔
plz muje khabar kro
جوابتبصرے 1