اسلام آباد -- دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری عسکری کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں نو برسوں میں کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک پاکستانی ادارہ برائے مطالعہ تنازعات و دفاع (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق، عسکریت پسندوں کی جانب سے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں سنہ 2007 میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور یہ سنہ 2014 میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں، جس کے بعد سنہ 2015 اور 2016 میں ان میں کمی واقع ہوئی۔
پی آئی سی ایس ایس نے کہا کہ سنہ 2007 سے مئی 2016 تک پاکستان میں پولیس نے عسکریت پسندوں کی جانب سے اغواء برائے تاوان کی 1،510 وارداتیں ریکارڈ کیں۔ سنہ 2014 میں، عسکریت پسند اغواء کی 355 وارداتوں کے مرتکب ہوئے، لیکن سنہ 2016 کے پہلے پانچ ماہ میں، ایسے صرف 46 واقعات پیش آئے جو معلوم ہیں۔
پی آئی سی ایس ایس نے رپورٹ میں کہا، "عسکریت پسند اغواء برائے تاوان کو ۔۔۔ پیسہ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں" رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے لیے اغواء برائے تاوان آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔
رپورٹ نے مزید کہا، "جب اغواء برائے تاوان کی وارداتیں رو بہ زوال ہیں تو عسکریت پسندوں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔"
پی آئی سی ایس ایس نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے پاس اغواء کے لیے استعمالات کی بہت انواع تھیں: حکومت کے ساتھ سودے بازی کرنا، رعایتیں مانگنا، مخالف عسکری گروہوں سے بدلہ لینا اور مخصوص مقامات پر اپنی رٹ قائم کرنا۔
پی آئی سی ایس ایس کے انتظامی ڈائریکٹر عبدل خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوجی آپریشن ضربِ عضب نے شمالی وزیرستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور ان کے اتحادی گروہوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز تباہ کر دیا، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی، لاہور اور دیگر شہروں میں مخبری کی بنیاد پر کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی طاقت اور نیٹ ورک کو ایک بڑا دھچکا لگایا۔ یہ اغواء کی وارداتوں میں تیزی سے کمی کا سبب بنا۔"
فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔ یہ آج تک جاری ہے۔
پی آئی سی ایس ایس کے خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے پیسے جمع کرنے کے لیے پشاور، کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں کے مکینوں کو اغواء کیا۔ چند وارداتوں میں تاوان کروڑوں روپے تک پہنچ گیا۔
انہوں نے کہا، بعض معاملات میں، ظالم عسکریت پسندوں نے ایک ہی وقت میں 20 افراد کو اغواء کیا اور ان افراد کو قتل کر دیا جن کے پیارے تاوان ادا نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب، فوج کی جانب سے ان کی جب جی چاہے اغواء کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دینے پر، عسکریت پسندوں کو اپنے سرمایہ آنے کے راستے بند ہوتے نظر آتے ہیں۔
سرمائے کے دیگر ذرائع بند ہو چکے ہیں
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک متبادل راستہ، بینک ڈکیتیاں، بھی مزید مشکل ہو چکا ہے۔
کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جنگجو عسکریت پسندی کے لیے پیسے جمع کرنے کے لیے کراچی میں بینک ڈکیتیاں کرتے تھے، لیکن کراچی کے آپریشن نے دہشت گردوں کے لیے آمدنی کے اس ذریعے کو بند کر دیا۔"
ستمبر 2013 میں نیم فوجی رینجرز نے پورے شہر میں ایک کارروائی شروع کی جو آج بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آپریشن نے کراچی میں عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کا صفایا کر دیا اور اغواء کرنے کی ان کی صلاحیت کو کم سے کم کر دیا۔
انہوں نے کہا، تاہم، قوتِ رفتار کو جاری رکھنا دفاعی اہلکاروں اور حکومت سے مزید وسائل مختص کرنے اور تعاون تشکیل دینے کا متقاضی ہے۔
طویل عرصے کے مسائل کے شکار کراچی میں، جس نے برسوں تک اغواء اور دیگر دہشت گردی کو سہا ہے، مکین امن و امان کی صورتحال میں بہتری کو سراہتے ہیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی کمیٹی برائے دفاع و خصوصی افعال کی صدرنشین، روزینہ جلال نے کہا، "اغواء کاروں اور عسکریت پسندوں جو کہ تاجروں سے جبری پیسہ وصول کیا کرتے تھے کے خلاف کارروائی کے بعد تاجر برادری سکھ کا سانس لے رہی ہے۔"
انہوں نے کہا، "کراچی آپریشن نے عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے [ان] نیٹ ورکس کو ختم کر دیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کراچی کو محفوظ بنانے میں پیش رفت کی وجہ سے کاروباری خواتین کے خلاف سٹریٹ کرائمز، جیسے کہ ڈکیتیوں، میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے نمائندے حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرنے کے طریقوں کے بارے میں کثرت کے ساتھ دفاعی حکام سے مشاورت کرتے ہیں۔