دہشتگردی

کے پی نے دہشت گردی، چوری کو روکنے کے لیے گاڑیوں کی کھوج کا نظام متعارف کروایا

از عدیل سعید

اگست 2014 میں پشاور کا ایک پولیس افسر ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے گزرنے والی ایک وین پر سٹکر چپکاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

اگست 2014 میں پشاور کا ایک پولیس افسر ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے گزرنے والی ایک وین پر سٹکر چپکاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور - خیبر پختونخوا (کے پی) کے حکام نے حال ہی میں گاڑیوں کی کھوج اور نگرانی کا ایک جدید ترین نظام نصب کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے۔ وہ پیش قدمی کرنے سے قبل سرکاری وکلاء کی جانب سے اجازت ملنے کے منتظر ہیں۔

ایسا کر کے وہ چوری اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شہر کے نائب ناظم (ڈپٹی میئر) سید قاسم علی شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ابتدائی مرحلے میں ۔۔۔ نظام پشاور میں ایک تمہیدی منصوبے کے طور پر نصب کیا جائے گا۔ اس تجربے کو کے پی کے دیگر شہروں میں دوہرایا جائے گا۔"

ابھی تک کوئی حتمی تاریخیں دستیاب نہیں ہیں، لیکن حکام کو جیسے ہی متوقع قانونی اجازت ملے گی وہ اس پر عمل کریں گے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تمام گاڑیوں -- بشمول کاروں، موٹرسائیکلوں، رکشوں اور بسوں -- کو چوبیس گھنٹے نگرانی کے تحت لایا جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ کارکن ہر گاڑی پر لگائے گئے برقیاتی ٹیگز کو پڑھنے کے لیے پورے شہر میں ٹرمینل نصب کریں گے۔

پشاور کی ضلعی حکومت اس منصوبے کو کے پی ٹریفک پولیس اور کے پی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر لاگو کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثر ہو کر

راہ چلتے گولیاں مار دینے کے عام رواج کا حوالہ دیتے ہوئے، قاسم نے کہا، "نظام ہدف بنا کر قتل کرنے اور دہشت گردی کے واقعات میں موٹر سائیکلوں کے استعمال کا مکمل خاتمہ کرنے میں مدد کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ کے پی حکام نے اس نظام کے بارے میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کے بعد سوچا ہے۔

کے پی حکام نے اس منصوبے کی منظوری 3 جون کے اجلاس کے دوران دی تھی جس کی صدارت قاسم نے کی تھی۔

انہوں نے کہا، "ہم مسلسل بحث کر رہے تھے ۔۔۔ کہ ایسے گھناؤنے واقعہ کو دوبارہ رونما ہونے سے کیسے روکا جائے۔ مباحثوں کے دوران ایک نجی فرم، اینٹوری ڈیٹابیس سسٹم ڈیزائنر، نے یہ تجویز پیش کی۔"

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ سرکاری-نجی شراکت داری میں ہے اور کمپنی منصوبے کو لگانے کی لاگت برداشت کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اینٹوری اس لاگت کو پورا کرنے کے لیے گاڑی مالکان سے ایک سالانہ فیس وصول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قاسم نے کہا کہ ضلعی حکومت نے اپنے قانونی شعبے کو منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے کہا ہے۔

قاسم نے کہا کہ اگر شعبۂ قانون اس کی منظوری دیتا ہے، تو کارکن اس نظام کو پشاور میں نصب کریں گے۔

تمام گاڑی مالکان کو اندراج کروانا ضروری ہے

اینٹوری کے ایک مشیر، عاصم حیات نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پشاور کی مقامی فرم گاڑیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرنے کے لیے پشاور میں 122 ٹرمینل نصب کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکام پشاور کے تمام گاڑی مالکان سے اینٹوری کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے اس نظام میں اندراج کروانے کو کہیں گے۔

اگر منصوبہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، تو پشاور کے گاڑی مالکان کو اپنی گاڑیوں پر ایک ٹیگ لگوانا پڑے گا۔

جب گاڑیوں والے ٹیگز لگوا لیں گے، گاڑیوں کی نگرانی شروع ہو جائے گی۔

عاصم نے کہا کہ ٹیگز ایک چوری شدہ کار یا موٹر سائیکل کو پورے شہر میں تلاش کرنا آسان بنا دیں گے۔

انہوں نے کہا، "پشاور میں نظام کی تنصیب میں تقریباً 120 دن لگیں گے۔"

عاصم نے اس امید کا اظہار کیا کہ ضلع پشاور کا شعبۂ قانون جولائی کے آخر یا اگست کے اوائل تک اجازت دے گا۔

شہریوں کے لیے تحفظ کو یقینی بنانا

ٹاؤن III-ضلع پشاور سے ایک اہلکار، علی حیدر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پورے پشاور کے منصوبے پر تقریباً 100 ملین سے 120 ملین روپے (1 ملین سے 1.2 ملین ڈالر) لاگت آئے گی۔ وہ 3 جون کے اجلاس کے شرکاء میں سے ایک تھے جس جہاں حکام نے ابتدائی طور پر منصوبے کی منظوری دی تھی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ ایک ۔۔۔ تقریباً لاگت سے پاک نظام ہے جو شہریوں کے مکمل تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اپنی لاگت پوری کرنے کے لیے، اینٹوری گاڑی مالکان سے سالانہ 200 روپے (2 ڈالر) فی گاڑی وصول کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے سے نوجوانون کے لیے تقریباً 1،500 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

انہوں نے کہا، "پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک پورے شہر کو چوبیس گھنٹے نگرانی کے نظام کے تحت لایا جائے گا۔"

منصوبہ ساز ٹریفک پولیس اور دیگر افسران کو موقع پر ہی گاڑی کی تفصیلات کی پڑتال کرنے کے لیے خصوصی ٹیبلٹ کمپیوٹر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

نیز، منصوبے کے مطابق، پشاور میں داخل ہونے والی بغیر ٹیگ کی کاروں کو پشاور کے گرد چوکیوں پر تفصیلی چھانٹی میں سے گزارا جائے گا۔

مبصرین خوش ہیں

صاحبِ علم مبصرین اس ممکنہ نئے منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

پشاور کے صحافی اور دفاعی تجزیہ کار شمیم شاہد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایسے انتظامات بہت بروقت ہیں۔ عوام کے تحفظ کے لیے ایک جدید حفاظتی نظام کا ہونا ضروری ہے۔"

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی جانب سے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کا مقابلہ کرنے کے لیے، معاشرے اور سیکیورٹی فورسز کو خود اپنے جدید نظام نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ شمیم نے منصوبہ بندی کردہ نظام کی جرائم میں گاڑیوں کے استعمال کو کم کرنے کی صلاحیت کے بارے میں اچھی امید کا اظہار کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500