سلامتی

پشاور پولیس نے بکتربند گاڑیوں سے اپنی سیکیورٹی کو بہتر بنا لیا

جاوید خان

24 مئی کو بکتربند گاڑیاں (اے پی سیز) اور گولیوں سے پچانے والی گشتی ویگنیں ملک سعد شہید پولیس لائنز سے پشاور کے مختلف علاقوں کو جا رہی ہیں۔ کارکنان نے حال ہی میں 6 اے پی سیز کی مرمّت کی، جس سے یہ بیڑہ 14 تک پہنچ گیا اور 61 گشتی ویگنوں کو بکتر پلیٹیں نصب کیں۔ [جاوید خان]

24 مئی کو بکتربند گاڑیاں (اے پی سیز) اور گولیوں سے پچانے والی گشتی ویگنیں ملک سعد شہید پولیس لائنز سے پشاور کے مختلف علاقوں کو جا رہی ہیں۔ کارکنان نے حال ہی میں 6 اے پی سیز کی مرمّت کی، جس سے یہ بیڑہ 14 تک پہنچ گیا اور 61 گشتی ویگنوں کو بکتر پلیٹیں نصب کیں۔ [جاوید خان]

پشاور — پشاور پولیس نے اپنے بیڑے میں بکتر پلیٹوں سے لیس 61 گشتی ویگنیں شامل کرکے اور چھ بکتربند گاڑیوں (اے پی سیز) کی بحالی سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمّد طاہر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم نے کئی برس قبل خراب ہو جانے کے بعد سٹوریج میں رکھی بین الاقوامی معیار کی چھ اے پی سیز کی مرمّت کی ہے۔“

اب پشاور پولیس کے پاس ہنگامی صورتِ حال کے لیے 14 اے پی سیز تیار ہیں۔ ان میں سے ہر گاڑی میں 10 مسافروں تک کی نقل و حمل کی گنجائش ہے۔

طاہر نے کہا، ”ہمارے پاس پہلے چھ اے پی سیز کارآمد تھیں، چھ مزید کی مرمّت کی اور [خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس کے] سنٹرل پولیس آفس سے دو نئی حاصل کی ہیں،“ انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں نے پولیس کو ہدف بنایا ہے، شہر کو شدّت سے مزید محفوظ گاڑیوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، ”ان اے پی سیز پر ہیوی مشین گنز نصب ہیں جو طویل فاصلے کے ہدف کو بھی درستگی سے نشانہ بنا سکتی ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا، ”ان میں سے چند گاڑیوں میں کارگر ایئرکنڈیشننگ نظام کے ساتھ ساتھ ایک انجن کے خراب ہو جانے کی صورت میں درست طور پر کام کرنے کے لیے ایک زائد انجن بھی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ یہ اے پی سیز پشاور کے نواح میں حساس قصبوں میں تعینات کی جائیں گی اور ضرورت پڑنے پر بہ آسانی دیگر علاقوں میں لے جائی جا سکتی ہیں۔

بکتربند اور جیمنگ آلات زندگیاں بچاتے ہیں

چھ اے پی سیز کی مرمّت کے علاوہ پولیس نے 61 گشتی ویگنوں کی بکتر پلیٹنگ بھی مکمل کی۔

طاہر نے کہا کہ یہ بکتر ”پولیس اہلکاروں کو پستولوں، بندوقوں اور چھوٹی مشین گنوں کی گولیوں سے بچا سکتی ہیں،“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جستی چادریں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈیز) سے ہونے والے نقصان میں بھی تخفیف کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ”8 مئی کو خاتّاکو پل کے قریب آئی ای ڈی کے ایسے ہی ایک حملے میں دو پولیس اہلکاروں کو صرف معمولی زخم آئے کیوں کہ ان جستی چادروں نے نوکیلے ٹکڑوں سے ہونے والے نقصان میں تخفیف کی۔“

پشاور کے سپرانٹنڈنٹ پولیس وسیم خلیل نے کہا ان 61 گشتی ویگنوں کے دروازے اور عقبی حصّے کو گولیوں سے محفوظ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک مظاہرے سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بکتر بندوقوں، پستولوں اور یہاں تک کہ سب مشین گنوں کی گولیوں کے لیے بھی مزاحم ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہر تھانے کو زیادہ سے زیادہ محفوظ گاڑیاں فراہم کرنے پر کام جاری ہے۔“

بکتر پلیٹنگ کے علاوہ، پولیس نے چند گاڑیوں میں جیمنگ آلات بھی نصب کیے، بطورِ خاص ان میں جو حساس علاقوں میں کام کرتی ہیں اور جو بموں پر ردِّ عمل دیتی ہیں۔

یہ جیمنگ آلات دہشتگردوں کو پولیس کو نشانہ بنانے کے لیے سڑکوں کے ساتھ نصب ریموٹ کنٹرولڈ آئی ای ڈیز کو چلانے سے روکتے ہیں۔

یہ اضافی سیکیورٹی انتظامات پہلے ہی زندگیاں بچا رہے ہیں۔

8 مئی کو پولیس قبل از سحر پشاور سے 25 کلومیٹر جنوب مشرق میں شمشتو پناہ گزین کیمپ میں ایک سکول میں ہونے والے دھماکے کی جائے وقوعہ پر پہنچی۔

ایک دوسری آئی ای ڈی ردِّ عمل دینے والی پولیس کی گاڑیوں کو ہدف بنانے کے لیے نصب تھی، لیکن ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس کی گاڑی میں جیمرز کی وجہ سے بم نہ پھٹ سکا۔ کے پی پولیس کے بم ڈسپوزل یونٹ نے اسے ناکارہ بنا دیا۔

پولیس کو لاحق خطرات میں کمی

پشاور پولیس کے بیڑے میں اضافہ اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان دُرّانی کے کے پی پولیس کی ایلیٹ فورس کو جنوری میں 12 نئی اے پی سی حوالے کرنے سے ہوا۔

ایلیٹ فورس دہشت گرد حملے جیسی غیرمعمولی صورتحال میں، ریگولر پولیس کی معاونت کرتی ہے۔

پشاور میں قائم کرائم اینڈ ٹیررازم جرنلسٹ فورم کے صدر، پشاور کے صحافی طارق وحید نے بتایا، 61 کاروں کی بلٹ پروفنگ، خاص طور پر قبائلی پٹی کے قریب واقع دیہی علاقوں میں گشت پر مامور پولیس کو لاحق خطرات کو کم کرے گی۔

انہوں نے بتایا، اے پی سیز اور آرمر پلیٹڈ گاڑیاں پولیس فورس کے جانی نقصانات کو کم کرنے میں مددگار ہوں گی۔

وحید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "امن بحال کرنے میں پولیس بہت اچھا کام کررہی ہے، لیکن زیادہ محفوظ ہونے کی صورت میں یہ اور بہتر کرسکے گی۔"

ایک مضافاتی تھانے میں کام کرنے والے پشاور پولیس کے کانسٹبل واجد خان نے بتایا، "پشاور پولیس کو خاص طور سے چند شورش زدہ شہروں میں محفوظ نقل وحرکت کے لئے [بکتربند] کاروں اور اے پی سیز کی براہ راست ضرورت ہے۔"

"ہم نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کی قربانی دی ہے جبکہ ان گنت افسران پولیس کاروں پر حملے میں زخمی ہیں،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "اب وہ زیادہ محفوظ ہوں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500