سلامتی

کے پی میں شاہراہ قراقرم کی حفاظت کے لئے خصوصی فورس تشکیل دیدی گئی

جاوید خان

اپریل میں شاہراہ قراقرم کے معائنے کے دوران، ہزارہ کی علاقائی پولیس کے افسر، محمد سعید وزیر مانسہرہ میں ضلعی پولیس افسران کے ساتھ صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

اپریل میں شاہراہ قراقرم کے معائنے کے دوران، ہزارہ کی علاقائی پولیس کے افسر، محمد سعید وزیر مانسہرہ میں ضلعی پولیس افسران کے ساتھ صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- اہم شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) کی حفاظت کرنے کی ان کوششیں سے، مسافروں اور ٹرک ڈرائیوروں کو دہشت گردوں، اغوا کاروں، ڈاکوؤں اور سامان چوری کرنے والوں سے زیادہ تحفظ حاصل ہو رہا ہے۔

ہزارہ ریجنل پولیس کے افسر، محمد سعید وزیر نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس نے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے سڑک استعمال کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے فروری میں ایک خصوصی فورس قائم کی ہے۔

یہ شاہراہ گلگت-بلتستان کو کے پی اور باقی پاکستان کے ساتھ ملاتی ہے۔

وزیر نے کہا کہ شاہراہ قراقرم پولیس فورس (کے پی ایف) میں کے پی پولیس کے 200 افسران خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شاہراہ پر گاڑیوں کی حفاظت کے لئے انکی 10 چوکیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے پی ایف نے قافلوں کے نظام کی جگہ لی ہے جو شاہراہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیےغیر مؤثر ثابت ہوۓ تھے۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس، ناصر خان درانی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ کے پی حکام نے امن و امان کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کے پی ایف قائم کی ہے۔

درانی نے کہا، "کے پی ایف کو بسوں اور کاروں پر حملوں کو روکنے کے لئے بنایاگیا تھا۔ ماضی میں، بہت سے لوگ گلگت-بلتستان جاتے ہوئے راستے میں ہلاک کر دیے جاتے تھے۔"

کے پی ایف اب بھی نسبتاً کافی چھوٹی ہے

شاہراہ قراقرم استعمال کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے، ہزارہ ڈویژن میں کے کے ایچ پر واقع ہر ضلع کی پولیس کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ اگر کے پی ایف کو مدد کی ضرورت تو وہ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچیں۔

شاہراہ قراقرم سارےموسم گرما میں اُن سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، جو پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی میں موسم گرما کی گرمی سے آرام چاہتے ہیں۔ یہ ایک مصروف بین الاقوامی تجارتی راستے پر بھی واقع ہے۔

کے پی ایف، صرف 200 افسران کے ساتھ 390 کلومیٹر طویل شاہراہ کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، جس کے لیے یہ چھوٹی پڑ سکتی ہے۔

پشاور میں خیبر پختونخواہ پولیس کے مرکزی دفتر میں خدمات انجام دینے والے پولیس سپرنٹنڈنٹ، محمد افضل نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ خیبر پختونخواہ پولیس نے مزید فنڈز اور اہلکاروں کے لئے وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں سے رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "اس فورس کو راستے پر گشت کرنے کے لیے مزید گاڑیوں، مناسب طریقے سے تعمیر کی گئیں چوکیوں اور مزید افسران کی ضرورت ہے۔"

درانی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ خیبر پختونخواہ پولیس نے مزید 532 افسران رکھنے اور کے کے ایچ پر مزید 20 چوکیوں کی تعمیر کے لئے پیسے کی درخواست کی ہے۔

بہتر سیکورٹی اور بہتر راستہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔

مبصرین کو امید ہے کہ بہتر سیکورٹی کا مطلب زیادہ سیاح اور زیادہ تجارت ہو گا، خاص طور پر بین الاقوامی تجارت۔

اردو زبان کے روزنامہ جنگ کے صحافی، پشاور کے قیصر خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، " کے کے ایچ کی حفاظت کے لیے، جہاں ماضی میں عسکریت پسندوں کے حملوں سے بہت سے لوگ مارے گئے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مزید فنڈز اور گاڑیاں فراہم کرنی چاہیئں اور مزید عملے کی خدمات حاصل کرنی چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ ایک محفوظ کے کے ایچ، ہزارہ ڈویژن اور گلگت-بلتستان میں اور زیادہ سیاحوں کو لے کر آۓ گی۔

کے پی حکام اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، پاکستانی حکومت اس علاقے میں مسافروں اور ٹرک ڈرائیور کی خدمت کے لئے مزید بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے پر کام کر ریی ہے۔

نومبر 2014 میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 30 ارب روپے (286.3 ملین امریکی ڈالرز) کی لاگت سے تعمیر ہونے والی ایبٹ آباد اٹک شاہراہ کا افتتاح کیا۔ یہ شاہراہ کے پی کے مکینوں کو ضلع ہزارہ اور گلگت بلتستان جانے کے لیے ایک متبادل راستہ فراہم کرے گی۔

60 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی تکمیل 2017 میں متوقع ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500