جرم و انصاف

کے پی پولیس آوٹ ریچ، تادیبی اقدامات سے بدعنوانی سے جنگ کر رہی ہے

جاوید خان

پشاور کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس جاوید اقبال 28 فروری کو پشاور میں بزرگوں سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ عوام کی حوصلہ افزائی کی جا سکے کہ وہ پولیس افسران کے خلاف کسی بھی شکایت کو لے کر افسران تک جائیں۔ ]کے پی پولیس[

پشاور کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس جاوید اقبال 28 فروری کو پشاور میں بزرگوں سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ عوام کی حوصلہ افزائی کی جا سکے کہ وہ پولیس افسران کے خلاف کسی بھی شکایت کو لے کر افسران تک جائیں۔ ]کے پی پولیس[

پشاور -- حکام کے مطابق، خیبر پختونخواہ (کے پی) کی پولیس فورس کے اندر سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین خان محسود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "گزشتہ اگست میں پشاور میں سینٹرل پولیس آفس میں داخلی احتساب ونگ قائم کیا گیا تھا تاکہ افسران کے خلاف شکایات کو وصول کیا جائے اور تحقیقات کا حکم دیا جائے"۔

انسدادِ بدعنوانی کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے، محسود نے اپنا سیل فون کا نمبر، 6555333-0340 عام کیا تاکہ وہ افسران اور حکام کے خلاف ہر کسی سے شکایات وصول کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ "تمام علاقائی اور ضلعی پولیس سربراہان نے اپنے سیل فون کے نمبروں کو عام کیا ہے تاکہ کوئی بھی انہیں براہ راست شکایت یا کوئی خفیہ اطلاع دے سکے"۔

پشاور کے ایک سب ڈویژن افسر عتیق شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے اپنے سیل فون کے نمبر مقامی افراد کو دیے ہیں تاکہ وہ پولیس کے کسی بھی خراب رویے کی -- خواہ وہ بدعوانی سے متعلق ہو یا نہ -- شکایت کے لیے مجھ تک اور دوسرے افسران تک براہ راست رسائی حاصل کر سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ "سوشل میڈیا کے علاوہ، شہر میں پوسٹر اور بینر لگائے گئے ہیں جن میں عوام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ حکام کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت کرنے یا علاقے میں مجرموں کے بارے میں اطلاع فراہم کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کریں"۔

علاوہ ازیں، 2014 سے، پشاور کے شہری کے پی پولیس کو پولیس ایکسس سروس کو استعمال کرتے ہوئے ایس ایم ایس کے ذریعے شکایات اور معلومات بھیجنے کے بھی قابل ہوئے ہیں۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر بھی ایسی خدمات کا بتدریج آغاز کیا گیا یہاں تک کہ گزشتہ سال پورے صوبے میں یہ خدمت میسر ہو گئی۔

جو لوگ شکایت درج کروائیں گے ان سے کوئی سینئر افسر فوری طور پر رابطہ کرے گا۔ پولیس ان کی معلومات اور شناخت کو خفیہ رکھے گی۔

بدعنوان افسران کے خلاف تادیبی کاروائی

پولیس حکام کے مطابق، پولیس فورس نے بدعنوان افسران کے خلاف گزشتہ چار سالوں کے دوران موثر تادیبی کاروائیاں کی ہیں جس سے بدانتظامی میں قابلِ قدر کمی آئی ہے۔

کے پی پولیس کے ترجمان وقار احمد کے مطابق، اکتوبر 2013 سے فروری 2018 کے وسط تک، 1,009 پولیس افسران کو بدعنوانی کے الزامات پر معطل کیا گیا یا انہیں ریٹائر ہونے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ تادیبی کاروائیاں بدعنوانی کی شکایات کی تفتیش کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے نتیجہ میں ہوئیں۔

دیگر 7,230 پولیس افسران کو دوسری سزائیں ملیں جن میں تنزلی بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات گزشتہ چند سالوں کے دوران کیے گئے ہیں تاکہ بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کی جائے اور میرٹ کی بنیاد پر قائم کام کرنے کے حالات کو یقینی بنایا جا سکے۔ "کارکردگی کا گراف بہتر ہوا ہے اور بدعنوان حکام کے خلاف فوری کاروائی کی وجہ سے عوام کی شکایات میں قابلِ قدر کمی آئی ہے"۔

وقار نے کہا کہ جو پولیس افسران اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں نقد رقم اور سَتائش جیسی مراعات بھی ملتی ہیں۔

پولیس کی کارکردگی میں بہتری

مشاہدین کا کہنا ہے کہ احتسابی اقدامات کے بڑھائے جانے کی وجہ سے پولیس فورس کی مجموعی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ تاجر نصیر احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کے پی کے سابقہ آئی جی پی ناصر خان درانی کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے سخت احتساب نے نہ صرف بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ پولیس اسٹیشنوں اور چیک پوائنٹس پر عوام کے ساتھ کیے جانے والے سلوک میں بھی بہتری آئی ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی ریاض خان نے کہا کہ "پولیس فورس کے رویے میں قابلِ قدر تبدیلی آئی ہے خصوصی طور پر شکایات سے نپٹتے وقت اور اس کی وجہ گزشتہ چند سالوں کے دوران کیا جانے والا سخت احتساب ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اب سینئر ترین پولیس افسران تک بھی سیل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی میسر ہے جس سے شہری کسی بھی اہلکار کے خلاف شکایت درج کروانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پچھلے تقریبا چار سالوں کے دوران بدعنوان اہلکاروں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کے باعث، پولیس کی مجموعی کارکردگی میں بہترئی آئی ہے اور بدعنوانی واضح طور پر کم ہوئی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Tana sarai naruang ma SHO sare aam paise lete ha awr Qareeb ky bat nahe sonat Aamir logo k sath de ta haa log ko katale karne per majbur karta ha ya kaise police ha ap logoo ky jab DPO ko darhwost deya to us ne SHO ko mark kya per ba SHO ghawor nahe karta

جواب