دہشتگردی

پاکستانیوں کی جانب سے مہمند ایجنسی کی مسجد میں خودکش بم دھماکے کی مذمت

از اشفاق یوسفزئی

کے پی گورنر اقبال ظفر جھگڑا 17 ستمبر کو باجوڑ ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ گورنر ہاؤس پشاور]

کے پی گورنر اقبال ظفر جھگڑا 17 ستمبر کو باجوڑ ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ گورنر ہاؤس پشاور]

پشاور -- 16 ستمبر کو مہمند ایجنسی کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران خودکش بم دھماکہ کرنے پر طالبان عسکریت پسندوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

وزیرِ اعظم میاں نواز شریف، خیبرپختونخوا (کے پی) کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا اور دیگر رہنماؤں نے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے پر عسکریت پسندوں کی مذمت کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ فوجی کارروائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عسکریت پسندی کو ختم کر دے گی۔

جماعت الاحرار، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والا ایک دھڑا جسے اگست میں ایک عالمگیر دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا تھا، نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں 28 افراد جاں بحق ہوئے اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔

2 ستمبر کو اس گروپ نے مردان میں ایک کچہری میں ایک خودکش حملے میں کم از کم 13 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ 8 اگست کو گروپ نے کوئٹہ میں ایک ہسپتال پر ایک حملے میں کم از کم 73 افراد کو شہید کیا تھا۔ اور مارچ میں، اس نے لاہور میں گلشنِ اقبال پارک پر حملہ کیا تھا، جس میں 75 افراد جاں بحق اور کم از کم 300 زخمی ہوئے تھے۔

انتہاپسندی کے خلاف پُرعزم

نواز شریف نے حملے کی مذمت کی اور آخر تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا۔

وزیرِ اعظم کے ایک ترجمان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، "ہم دہشت گردی کے خلاف پُرعزم رہیں گے۔ دہشت گردوں کی جانب سے بزدلانہ حملے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے حکومتی عہد کو نہیں توڑ سکتے۔"

ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا، "فوجی آپریشن کے نتیجے میں ایک بہت بڑی شکست سے دوچار ہونے کے بعد دہشت گرد اب مقدس مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم ہے جس کے لیے فوج، پولیس اور عوام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہا، "مہمند ایجنسی میں مسجد کے اندر قابلِ مذمت دہشت گرد حملے پر صدمے سے دوچار ہوں جس میں اس وقت نماز ادا کر رہے نمازیوں کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہوئی۔"

بے گناہوں کا قتل خلافِ اسلام ہے

زخمیوں میں سے سات افراد، جن میں دو بچے بھی شامل تھے، کو افواجِ پاکستان کے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پشاور لے جایا گیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔

ہسپتال میں زیرِ علاج ایک زخمی شخص، فضل گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم تیزی کے ساتھ پشاور میں منتقلی اور علاج کے لیے پاکستانی فوج کے شکرگزار ہیں۔"

گل نے کہا کہ لوگ طالبان سے عاجز آ چکے ہیں جنہوں نے ان کی زندگیوں کو بدترین بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم سیکیورٹی فورسز کی حمایت کرنا اور اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کو پناہ گاہیں دینے سے انکار کرنا جاری رکھیں گے۔"

تاج آباد کے علاقے میں ایک امام مسجد، مولوی مشتاق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا خلافِ اسلام ہے۔ پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امن کی وکالت کی لیکن طالبان نے اپنے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دین کے نام کو غلط استعمال کیا۔"

انہوں نے کہا کہ ایک مسجد پر حملہ کرنا انتہائی قابلِ مذمت ہے جہاں لوگ خدا کی عنایات کی طلب میں جمع ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "لوگ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی مساجد میں قتل نہیں کرتے، لیکن طالبان عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔ طالبان مندروں اور گرجا گھروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔"

ہر قیمت پر امن

حملے سے اگلے روز، کے پی کے گورنر جھگڑا نے 17 ستمبر کو مہمند ایجنسی میں ایک ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔

انہوں نے انبار تحصیل، جہاں دھماکہ ہوا تھا، میں عمائدین کے ایک اجلاس میں کہا، "حکومت مقامی آبادی کی مدد سے ہر قیمت پر امن قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہم ان لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے جو لاقانونیت پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں ہیں۔ مقامی عمائدین کا کردار قابلِ تحسین رہا ہے۔"

زرِ تلافی اور دیگر امداد مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، کہ حکومت حکومت جاں بحق ہونے والے ہر شخص کے ورثاء میں سے ایک کو ملازمت مہیا کرے گی تاکہ ان کے خاندانوں کی کفالت میں مدد ملے۔

پاکستانی فوج کے کے پی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان نے بھی 17 ستمبر کو مہمند ایجنسی کا دورہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقامی باشندوں کی دلیرانہ جنگ کو سراہا۔

انہوں نے کہا، "قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنے کی کوششیں قبائلی آبادی کی قربانیوں کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہیں۔ عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔"

طالبان آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں

انبار امن کمیٹی کے 44 سالہ رکن عمر رحمان جنہیں حملے میں پیٹ پر زخم آئے تھے، نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی فساد کے خلاف لڑنے اور امن قائم کرنے کے لیے وقف کر دی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "طالبان عسکریت پسند اب ایک ہاری ہوئی فوج ہیں۔ وہ سیکیورٹی فورسز کا اب مزید سامنا نہیں کر سکتے۔ چند لوگ جو ان کے حمایتی ہوا کرتے تھے اب ان کی غلط کاریوں کی وجہ سے ان کے خلاف ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اس حملے نے لوگوں کو مزید حوصلہ دیا ہے اور مقامی باشندے علاقے کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔"

ایک دفاعی تجزیہ کار اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری دفاع، بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے مقدس مقامات اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے کا وطیرہ اپنایا ہے۔

باغی بھاگ رہے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے سے قاصر ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی توجہ آسان اہداف کو نشانہ بنانے پر مرتکز کر لی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو مساجد، اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات کے پہرے کو سخت کرنا چاہیئے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندوں کا غائب ہونا خطے میں مستقل امن پر منتج ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500