لبنان اور شام کے درمیان سرحد پر حالیہ جھڑپوں اور بمباری جس میں "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) اور سابقہ طور پر النصرہ فرنٹ (اے این ایف) کے نام سے مشہور گروہ ملوث تھا، نے لبنان میں عدم استحکام پیدا کرنے میں حزب اللہ کے کردار کو آشکار کر دیا ہے۔
ماہرین نے المشرق کو بتایا کہ ایران کی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) کی حمایت رکھنے والے گروہوں کی شام کی جنگ میں مداخلت کے باعث، دہشت گرد گروہ اور دوسرے کردار لبنان پر حملے کرنے کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں۔
لبنانی مرکز برائے تحقیق و مشاورت کے سربراہ حسن قطب نے کہا کہ "حزب اللہ کی شامی معاملات میں مداخلت پر، لبنان میں استحکام کو جھٹکا لگا"۔
کئی مہینوں سے، فتح الشام فرنٹ، سابقہ اے این ایف اور داعش شہری اور عسکری اہداف پر دہشت گردانہ حملے کر رہی ہے اور وہ دونوں آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔
لبنان کی فوج باقاعدگی سے داعش اور اے این ایف کے ان جنگجوؤں کے ساتھ مارٹر گولوں کا تبادلہ کرتی ہے جو لبنان اور شام کی سرحد کے ساتھ دشوار گزار علاقوں میں مورچے بنائے ہوئے ہیں اور لبنان کے اندر دہشت گردی کی ایک حالیہ مثال میں، ستائیس جون کی صبح سویرے، چار خودکش بمباروں نے سرحدی شہر القاع میں اپنی دھماکہ خیز جیکٹوں کو اڑا دیا جس کے بعد شام گئے دوسرے چار خودکش دھماکے ہوئے۔
قطب نے کہا کہ ایک طرف تو داعش اور اے این ایف میں اور دوسری طرف ان دونوں گروہوں اور حزب اللہ میں اختلافات بڑھ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر حزب اللہ نے شام میں اپنی مداخلت جاری رکھی تو ان گروہوں کے درمیان جھڑپوں سے لبنان پر اثر پڑے گا اور اس کے استحکام کو دھچکا لگے گا۔
حزب اللہ قصوروار ہے
اے این ایف کے راہنما ابو محمد ال جیلانی نے اٹھائیس جولائی کو پہلی بار عوام کے سامنے آتے ہوئے ایک وڈیو میں اعلان کیا تھا کہ گروہ نے اپنا نام بدل لیا ہے اور اب وہ شام میں دوسرے جنگجوؤں کے ساتھ متحد ہو رہے ہیں اور اس نے القاعدہ سے اپنے تعلقات ختم کر لیے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار علی ال امین نے المشرق کو بتایا کہ "خواہ النصرہ فرنٹ یا اس کے ساتھیوں کے لیبل کیسے بھی بدلے ہوں، لبنان حزب اللہ کی شام کی جنگ میں مداخلت کے باعث دہشت گرد تنظیموں کے لیے آسان حدف رہے گا"۔
انہوں نے المشرق کو بتایا کہ "شام میں حزب اللہ کی مداخلت کے سنگین نتائج اور لبنانی اکھاڑے کے لیے خطرات بیں اور یہ اسے ردعمل کا نشانہ بنا دیتی ہے مگر اس بات کو کوئی نہیں جانتا کہ کب، کیسے اور کس شکل میں ایسا ہو گا"۔
انہوں نے کہا کہ لبنان کو اے این ایف اور داعش جیسے دوسرے گروہوں سے جو خطرات ہیں "وہ اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک لبنان اور شام کا مسئلہ موجود رہتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "اس طرح، زخم کھلا رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ بم دھماکوں، خودکش دھماکوں اور لبنان اور شام کی سرحد اور بقا کی پہاڑی کی قصبوں میں جھڑپوں میں اضافے کی صورت میں نکلے"۔
امین نے کہا کہ "اس بات کا دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ لبنان میں حالات بہتر ہوئے ہیں"۔ لبنان کو خطرات "حزب اللہ کی شام میں مداخلت کے ساتھ کم نہیں ہوں گے جو کہ اے این ایف کی طرف سے اس کے نئے نام اور اس کی حامی تنظیموں کی طرف سے لبنان اور اس کے لوگوں کی سیکورٹی کے لیے مسلسل جاری خطرے کا باعث ہے"۔
ریٹائرڈ برگیڈیر جنرل رچرڈ داغر نے کہا کہ اے این ایف نے داعش جو کہ اس کی شام میں حریب ہے، سے اپنی شناخت الگ کرنے کے لیے اپنا لبادہ بدلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے این ایف خواہ اپنے آپ کو القاعدہ سے لاتعلق کرنے کی جتنی بھی کوشش کرے وہ پھر بھی ایک دہشت گرد گروہ ہے کیونکہ اس کی نہ تو بیان بازی بدلی ہے اور نہ ہی اس کے نظریات بدلے ہیں۔
اگرچہ لبنان کی فوج نے اے این ایف اور داعش کے ساتھ اپنی سرحد پر جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے مگر اس سے "سیکورٹی کی خلاف ورزیاں رکی نہیں ہیں کیونکہ لبنان دہشت گردی کے خطرے اور دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے سے الگ نہیں ہے"۔
داغر نے زور دیا کہ لبنان کو درپیش خطرہ "اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ حزب اللہ شام کی جنگ میں اپنی مداخلت کو جاری رکھے گا"۔