ایران کا بلاسٹک میزائل کا حالیہ تجربہ ایک اشتعال انگیز قدم ہے جو ریاست کی طرف سے بین الاقوامی معاہدوں اور اقرار ناموں کی صریح نظراندازی کی ایک تازہ ترین مثال کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ بات ماہرین نے المشرق کو بتائی۔
مڈل ایسٹ سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریجک اسٹڈیز کے ایک محقق، فتحی ال سید جو کہ ایرانی امور میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، نے کہا کہ ایران "پوری دنیا کے خلاف کئی سالوں سے بہت سی مسلسل اشتعال انگیزیوں میں ملوث رہا ہے"۔
انہوں نے المشرق کو بتایا کہ اس کی انتہا 29 جنوری کو ایران کی طرف سے بلاسٹک میزائل کے تجربے کے بعد ہو گئی جو کہ "بین الاقوامی برادری کے لیے ایک چیلنج اور اشتعال انگیزی تھا"۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان اشتعال انگیزیوں کی فہرست میں ایک اضافہ ہے جنہیں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کور (آئی آر جی ایس) کے ذریعے انجام دیا گیا ہے اور اس میں خودمختار ممالک جن میں عراق، شام، لبنان اور یمن شامل ہیں میں ایران سے وفاداری رکھنے والے مسلح اڈوں کو قائم کرنا شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات نے مل کر "عدم استحکام کی حالت کو جنم دیا ہے جس کا نتیجہ تباہ کن جنگوں کی صورت میں نکلا ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے باعث خطرے کی مسلسل موجودگی بھی پیدا ہوئی ہے"۔
ال سید نے کہا کہ ایرانی حکومت نے اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے فرقہ واریت کے شعلوں کو "اپنے آپ کو شعیہ فرقے کے پاسبان کے طور پر پیش کرنے" سے بھڑکایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ایران نے اپنی وسعت کے مسئلہ کو ایک مذہبی مسئلے میں تبدیل کر دیا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکومت کے اقدامات واضح طور پر"معاندانہ اور جنگجو ہیں جس سے نہ صرف ایک مخصوص ملک یا علاقے کے لیے ہی نہیں بلکہ مجوعی طور پر پوری دنیا کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے"۔
میزائل کے حالیہ تجربے کے ردِعمل میں، امریکہ کے وزارت خزانہ کے محکمہ نے اعلان کیا کہ وہ 13 ایرانی افراد اور 12 اداروں پر نئی پابندیاں لگا رہا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ میزائل پروگرام اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مدد کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
'بہت سی، سنگین خلاف ورزیاں'
اسیوط یونیورسٹی کے پروفیسر خیرالدین عبدل متال جو کہ بین الاقوامی قانون کے ماہر بھی ہیں، نے کہا کہ ایران اقتصادی، سیاسی، مالی اور فوجی شعبوں میں، بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کی سنگین اور بہت سی خلاف ورزیوں میں ملوث رہا ہے۔
انہوں نے المشرق کو بتایا کہ یہ طرزِ عمل "صرف بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ کے قانونی جواز کو صریح طور پر مسترد کیے جانے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئی پابندیاں بلاسٹک میزائلوں، دہشت گردانہ گروہوں کی مدد اور ان ایرانی راہنماؤں کی نقل و حرکت پر مرکوز ہیں جو پہلے ہی بین الاقوامی پابندیوں اور قدغن کا شکار ہیں۔
ایران نے اپنے اتصالیوں کو جن میں حوثی (انصار اللہ)، حزب اللہ اور شام میں لڑنے والے بہت سے عراقی عسکریت پسند شامل ہیں، مسلح اور لیس کرنے سے اقوامِ متحدہ کی 24 مارچ 2007 کی قرارداد 1747 کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔
عبدل متال نے کہا کہ اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "ایران کسی بھی قسم کے ہتھیار یا اس سے متعلقہ سامان کو اینے علاقے، یا اپنے شہریوں کے ذریعے یا اپنے پرچم والے بحری یا ہوائی جہاز سے بلواسطہ یا بلا واسطہ فراہم، فروخت یا مہیا نہیں کرے گا"۔
عبدل متال نے کہا کہ اسی طرح، آئی آر جی سی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کا شام کی حکومت کی حمایت میں شام میں لوگوں کے سامنے کھلے عام آنا، بین الاقوامی پابندیوں کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وسیع پیمانے پر پھیلائی جانے والی تصویروں اور ویڈیوز کی جھلکیوں میں سلیمانی دسمبر میں حلب میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔
توسیعی علاقائی مداخلت
اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1929 جسے 2010 میں منظور کیا گیا "ایران ایسے بلاسٹک میزائلوں سے متعلقہ کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا جو ایٹمی ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جس میں بلاسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تجربات کرنا بھی شامل ہے"۔
عبدل متال نے کہا کہ "اس میں، ایران نے کسی شک و شبہ کے بغیر قرارداد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی منتقلی سے منع کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی کی ٹیموں نے بہت سی ایسی رپورٹیں جمع کروائی ہیں جن میں خصوصی طور پر شام کو ہتھیاروں کی برآمد میں ایران کے ملوث ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 24 ستمبر 2012 کو اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق "مختلف ممالک میں چھہ ایسے مقامات دریافت کیے گئے ہیں جہاں ایسے ایرانی ہتھیار موجود تھے جنہیں ایران سے مختلف مقامات پر بھیجا گیا تھا جس میں شام بھی شامل ہے"۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں اور اداروں کی فہرست جنہیں تازہ ترین پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، کو پرانی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا جو ابھی تک موثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے ناموں کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے "بلاسٹک ہتھیاروں کے لیے وسائل کو مہیا کرنے کے لیے کام کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئی آر جی سی اور بین الاقوامی طور پر دہشت گرد تنظیمیں قرار دیے جانے والے گروہوں کے لیے مالی وسائل مہیا کیے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کام منی لانڈرنگ کے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی آپریشنز کے ذریعے کیا گیا۔
لبنان کے عالم شیخ محمد ال حج حسن نے المشرق کو بتایا کہ ایرانی حکومت "علاقائی مسائل کا استحصال کرتی رہی ہے اور اپنے آپ کو علاقے کے شعیوں کے محافظ اور نگران کے طور پر پیش کرتی ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مشرق وسطی کے معاملات میں بھی "ساز باز" کرتی رہی ہے اور اپنے اتصالیوں کو استعمال کرتے ہوئے لبنان میں اپنے ایجنڈا کو بڑھاتی رہی ہے۔
amrica or iran ka gath jorr h iran india israil amrica es s pehle bhi muhaide huwe hn....jo k pakistan smet muslim mumalik k andr firqawran dehshat grdi or lisani dehsht grdi m mulavis rahe hn sham yaman iraq libnan behren saoudi arbia or pakistan m proxy war m mulavis rahe hn....y muhaide or pabandian muslimano ki ankhon m dhol jhokina hn....lakhon insano k qatal e aam m iran amrica israil india brobr k shreek hn....y mulak bad treen dehsht grad hn or safak qatil hn....pakistan m halia dehsht grdi m bhi berah e rast mulvis hn afgan dhrty ko pakistan k khilaf istemal kr rahe hn....daish or ttp samet tamam dehsht grd tanzeemo ko suport krna iran india ka wateera raha h
جوابتبصرے 1