دہشتگردی

پاکستان داعش کے خاتمے کا عزم رکھتا ہے

ظاہر شاہ

26 جون کو واہ کنٹونمنٹ، صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی ایل کی ایک وال چاکنگ دکھائی گئی ہے۔ [ظاہر شاہ]

26 جون کو واہ کنٹونمنٹ، صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی ایل کی ایک وال چاکنگ دکھائی گئی ہے۔ [ظاہر شاہ]

پشاور — حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیسا کہ ملک بھر میں ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) سے ملحق ملزمان پر حالیہ کریک ڈاؤن سے واضح ہے، پاکستان عالمی امن کی اپنی مہم میں ہر قسم کی دہشتگردی کی بیخ کنی کے لیے پرعزم ہے۔

حال ہی میں، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور آباد علاقوں میں قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے نتیجہ میں حکام نے مقامی گروہوں، القاعدہ اور آئی ایس آئی ایل سے منسلک ہونے کے الزام میں متعدد دہشتگرد ملزمان کو حراست میں لیا ہے۔

حکومت نے دسمبر 2014 میں دہشتگردوں کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے کچھ ہی مدت بعد انسدادِ دہشتگردی کے این اے پی کا آغاز کیا۔

پولیس نے کہا کہ ان میں سے چند ملزمان نے ٹی وی اینکرز، دیگر صحافیوں اور نفاذِ قانون کے عہدیداران کو قتل کرنے کی منصوبہ سازی کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

ایک ملزم عاصم عرف اسامہ پر جنوری 2016 میں اسلام آباد میں اے آر وائی ٹی وی سٹیشن پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ اس واقعہ میں ایک شخص زخمی ہوا۔ تفتیش کے دوران عاصم نے ان دیگر افراد کی نشاندہی کی جو اس کے مطابق ملوث تھے۔

پولیس نے دیگر ملزمان کو حراست میں لیا۔ ان پر مختلف افراد سے 1.5 ملین روپے (15,000 امریکی ڈالر) بھتہ وصول کرنے کا الزام ہے۔

پولیس نے واہ کنٹونمنٹ صوبہ پنجاب میں ایک گھر پر آئی ایس آئی ایل کی حمایت میں نعروں کی وال چاکنگ پر بھی فوری ردِّ عمل دیا اور فوری طور پر مجرموں کی تلاش کی کاروائی کا آغاز کیا۔

آئی ایس آئی ایل پر کریک ڈاؤن

پاکستانی حکام ملک میں آئی ایس آئی ایل کی موجودگی کی خبروں کو مسترد کر دیا کرتے تھے۔

یہ رویّہ اس وقت ختم ہو گیا جب انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ سینکڑوں پاکستانی آئی ایس آئی ایل کی طرف سے لڑنے کے لیے شام جا چکے ہیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ آئی ایس آئی ایل ایک خطرے کے طور پر اس لیے ظہور پذیر ہو رہی ہے کیوں کہ لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ پاکستان جیسے متعدد شرپسند گروہ اس کے تصورات کی حمایت کرتے ہیں۔

آفتاب نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگرد تنظیمِ نو کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بارڈر سیکیورٹی، این اے پی کے نفاذ کو جاری رکھنے اور دہشتگردوں کی انسداد کے ضمن میں تاکید کے ساتھ بنیاد پرستی کے خاتمہ کی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔

فاٹا کے لیے سابق سیکریٹری سیکیورٹی، پشاور سے تعلق رکھنے والے برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا، ”پاکستان کا عزم نہایت واضح ہے۔ آئی ایس آئی ایل سے ملحقہ دہشتگردوں کی حالیہ گرفتاریوں اور شہری اور دیہی قبائلی علاقوں میں دہشتگرد نیٹ ورکس پر کریک ڈاؤن اس امر کی وضاحت ہیں کہ پاکستان کسی قسم کی دہشتگردی کو برداشت نہیں کرے گا۔“

انہوں نے کہا، ”ان سب کے خاتمہ کی ضرورت ہے“۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کسی بھی رنگ کی ٹوپی یا پگڑی پہننے والے دہشتگرد ریاستِ پاکستان کے دشمن ہیں۔ پاکستانی نفاذِ قانون کے ادارے ان کا شکار کر رہے ہیں۔“

جامعہ پشاور کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین، اے۔ زیڈ حلالی نے کہا کہ ایسے تمام بنیاد پرست گروہوں کو شکست دینا ناگزیر ہے جو ماضی میں القاعدہ سے ہمدردیاں رکھتے تھے اور اب اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے آئی ایس آئی ایل کی جانب لا رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے غیر ملکی دہشتگرد گروہوں کو اپنے شہریوں کی مزید خونریزی کرنے سے روکنے کا عزم کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ”حالیہ [کریک ڈاؤن] تمام غیر ملکی گروہوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب دہشتگردوں کی جنّتِ محفوظ نہیں رہا۔“

انہوں نے مزید کہا، ”نفاذِ قانون کی ایجنسیاں ان کا خاتمہ ہونے تک ان کا پیچھا کریں گی۔“

ایک مہلک تعاون

جامعہ پشاور میں سیل برائے فاٹا اسٹڈیز کے سربراہ سید حسین شہید سہروردی نے کہا، ”آئی ایس آئی ایل کو پناہ دینے والے متعدد پاکستانی بینادپرست گروہ اس کے ساتھ ایک بین الاقوامی دہشتگرد گروہ ہونے کے ناطے ایک معاون تعلق رکھتے ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کو اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ اب آئی ایس آئی ایل ایک سنجیدہ خطرہ ہے اور آئی ایس آئی ایل کے مفادات کے خلاف اس کی پرزور کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ ہم اس خطرے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔“

پشاور کے ایک پولیس عہدیدار، مشتاق خان، جو تقریباً ایک دہائی سے متعدد دہشتگرد گروہوں سے نبرد آزما ہیں، نے کہا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے آئی ایس آئی ایل کی خونریزی دیکھی ہے۔

انہوں نے کہا، ”ان کے بے قابو وحشی بن جانے سے قبل، آغاز ہی میں ان کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500