تعلیم

کے پی نے اسکولوں سے جسمانی سزا ختم کرنے کے مسودہِ قانون منظور کر لیا

محمد شکیل

منگورہ، وادیِ سوات میں طلباء 29 مارچ کو سالانہ امتحان کے لیے اسکول میں بیٹھے ہیں۔ کے پی کی کابینہ نے اس ماہ ایک مسودہِ قانون کی منظوری دی جس کے تحت کے پی کے تمام اسکولوں میں جسمانی سزاؤں پر پابندی لگا دی جائے گی۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

منگورہ، وادیِ سوات میں طلباء 29 مارچ کو سالانہ امتحان کے لیے اسکول میں بیٹھے ہیں۔ کے پی کی کابینہ نے اس ماہ ایک مسودہِ قانون کی منظوری دی جس کے تحت کے پی کے تمام اسکولوں میں جسمانی سزاؤں پر پابندی لگا دی جائے گی۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کی کابینہ نے ایک مسودہِ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت سرکاری اور نجی اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کو غیر قانونی بنا دیا گیا ہے۔

حکام نے یہ فیصلہ 11 اپریل کو کے پی کے وزیرِاعلی پرویز خٹک کی زیرِ صدارت ہونے والی کابینہ کی میٹنگ کے دوران کیا۔

اس قانون پر مزید عمل اور کے پی کی اسمبلی کی طرف سے ووٹ کا انتظار ہے۔

کے پی کے اعلی تعلیم کے وزیر مشتاق غنی نے 15 اپریل کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بچوں کو غیر انسانی جسمانی سزائیں دینے کی ممانعت کرنے والا کوئی قانون موجود نہیں تھا اور بہت سے واقعات میں والدین کے پاس عدالت میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا"۔

کے پی کے اعلی تعلیم کے وزیر مشتاق غنی (دائیں) 11 اپریل کو پشاور میں، ذرائع ابلاغ کو کابینہ کے مختلف فیصلوں کے بارے میں بریف کر رہے ہیں جس میں اسکولوں میں جسمانی سزائیں دینے کے بارے میں ایک مسودہ قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔ ]محمد شکیل[

کے پی کے اعلی تعلیم کے وزیر مشتاق غنی (دائیں) 11 اپریل کو پشاور میں، ذرائع ابلاغ کو کابینہ کے مختلف فیصلوں کے بارے میں بریف کر رہے ہیں جس میں اسکولوں میں جسمانی سزائیں دینے کے بارے میں ایک مسودہ قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔ ]محمد شکیل[

انہوں نے کہا کہ "قانون کی غیر موجودگی نے شکایات پر مناسب توجہ حاصل کرنے کے لیے، ستم زدہ والدین کو قانونی جنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔

غنی نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے کے پی کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ مناسب قانون سازی اور نفاذ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قدم اسکول کے بچوں کو سفاکانہ سزائیں دیے جانے کی مختلف خبروں کے بعد اٹھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ "یہ قانون نجی اور سرکاری دونوں اسکولوں پر نافذ ہو گا اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے انہیں (زیادہ سے زیادہ) چھہ ماہ کی قید اور 50,000 روپے (450 ڈالر) کا جرمانہ کیا جا سکے گا"۔

غنی نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس قانون سے جسمانی سزاؤں کا خاتمہ ہو گا اور ایسے طلباء جنہیں ایسے استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ اسکول واپس آ جائیں جس سے کے پی کے اسکولوں میں داخلوں کی شرح میں اضافہ ہو گا۔

اساتذہ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا

گورنمنٹ ہائی اسکول گنج گیٹ پشاور کے ایک استاد احسان اللہ شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مار پیٹ اور دوسری جسمانی سزائیں اسکولوں میں نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور طلباء کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بہانے کے تحت اساتذہ اور انتظامی عملے کی طرف سے استعمال کی جاتی ہیں جن پر ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ہوتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "کے پی کی حکومت کی طرف سے جسمانی سزاؤں کو ختم کرنے کی کوششوں سے دور رس اثرات پیدا ہوں گے اور ایسے بچے جو اسکول کو چھوڑ چکے ہیں انہیں متوجہ کیا جا سکے گا اور انہیں سیکھنے کے لیے خوف سے پاک ماحول مہیا کیا جائے گا"۔

شاہ نے تجویز کیا کہ قانون کے موثر ہونے کو مزید بڑھانے کے لیے، اساتذہ کو مناسب طریقے سے سکھانے کی ضرورت ہے کہ مارپیٹ سے بچوں کے ذہن کو نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ جرمانوں اور قید کا خوف ان افراد کو روکے گا جو دوسری صورت میں جسمانی سزائیں دیتے، کہا کہ "کے پی کے اساتذہ کو حال ہی میں 'اساتذہ تھراپسٹ کے طور پر' نامی تربیت ملی ہے جس نے اپنے طلباء کے لیے میرا تصور بالکل تبدیل کر دیا ہے"۔

گورنمنٹ ہائی اسکول گلشن رحمان کالونی پشاور میں انگلش زبان کے ایک استاد رشید خان نے کہا کہ اساتذہ کی مناسب تربیت انہیں طلباء کو موقع کی منابست سے سنبھالنے کی ضروری صلاحیتیں دے گی جس سے اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کے اقدامات حکام کی سنجیدگی کی عکاسی کرتے ہیں -- جو قابلِ تعریف ہے۔ مگر نتائج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اگر اساتذہ کو یہ سکھایا جائے کہ وہ طلباء سے اپنے بچوں جیسا سلوک کریں"۔

خان کے مطابق، اساتذہ کی اکثریت جسمانی سزاؤں کے خلاف ہے مگر کچھ ایسے ہیں جو اسے بدتمیز طلباء کو سنبھالنے کا واحد راستہ تصور کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیا قانون ان اساتذہ کو مجبور کرے گا کہ "وہ اپنی پرانی عادتیں چھوڑیں اور بچوں سے پیار اور محبت کا سلوک کریں"۔

خوف کے بغیر سیکھنا

پشاور کے ساتویں جماعت کے ایک طالبِ علم احسان اقبال نے کہا کہ "کلاس میں ہم جماعت سے بات کرنے پر استاد کی طرف سے مارے جانے کے بعد میں نے اپنے والد کو بتایا کہ میں پڑھائی چھوڑ دوں گا"۔

اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اگلے دن میرے لیے اسکول جانا بہت مشکل تھا مگر میرے پاس دعا کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ ختم نہ ہونے والی گزارشوں اور اپنے والد کو اسکول میں دی جانے والی سزا کے بارے میں بتانے کے بعد، وہ مجھے دوسرے اسکول منتقل کرنے پر رضامند ہو گئے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میرے خیال میں اسکولوں میں دی جانے والی جسمانی سزاؤں کو ختم ہونا چاہیے۔ جبر سے پاک اور خوشگوار ماحول کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جو طلباء کو خوف یا دباؤ کے بغیر اپنی پڑھائی پر توجہ دینے کے قابل بنائے"۔

احسان کے والد اقبال بچہ جو کے پی اسمبلی میں ایک کلرک ہیں، نے کہا کہ "بچوں کی نازک ذہنیت اور نفسیاتی حالت مطالبہ کرتی ہے کہ ان سے اسکول میں اس کے مطابق ہی سلوک کیا جائے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جسمانی سزائیں سرکاری اسکولوں میں عام ہیں جہاں بچوں کی اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہوتا ہے اور ان کے والدین کے پاس ایسے وسائل کی کمی ہوتی ہے جن سے وہ شکایت درج کروا سکیں اور قانونی وسائل کو ڈھونڈ سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ "استحصال اور سخت جسمانی سزاؤں کا شکار بننے والے بچوں کے والدین اس مسئلے پر غور کرنے پر حکومت کی تعریف کر رہے ہیں جو سرکاری اور نجی اسکولوں میں پڑھنے والے ہزاروں بچوں کو براہ راست متاثر کرتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اب تمام والدین کو یقین دہانی ہونی چاہیے اور پر اعتماد ہونا چاہیے کہ ان کے بچے اب بے فکری کے ماحول میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہو جائیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500