سلامتی

سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان نے کشیدگی کو ٹھنڈا کیا ہے

محمد آحل

پاکستانی فوجی، اکتوبر 2017 میں سرحد پر لگائی جانے والی نئی باڑ کے ساتھ گشت کر رہے ہیں جو شمالی وزیرستان کو افغانستان سے الگ کرتی ہے۔

پاکستانی فوجی، اکتوبر 2017 میں سرحد پر لگائی جانے والی نئی باڑ کے ساتھ گشت کر رہے ہیں جو شمالی وزیرستان کو افغانستان سے الگ کرتی ہے۔

پاراچنار، پاکستان -- ریڈیو فری یورپ /ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/ آر ایل) نے پیر (16 اپریل) کو خبر دی ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے اس ہفتے کے آغاز میں سرحدی جھڑپوں کے بعد، جن میں کئی افراد ہلاک ہوئے، جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

افغان سرحدی پولیس اور پاکستان فرنٹئر کور کے ارکان کے درمیان لڑائی کا آغاز اتوار کو افغانستان کے خوست صوبہ کی زازی میدان ڈسٹرکٹ میں ہوا جس کی پاکستان کے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی کرم ایجنسی کے ساتھ سرحد ہے۔

اسی دن بعد میں، قبائلی عمائدین کے ذریعے ہونے والی صلح کے بعد، افغان طرف نے پانچ پاکستانی فوجیوں کی لاشیں اور ایک دوسرے فوجی کو، جسے زندہ گرفتار کیا گیا تھا، پاکستان کے حوالے کر دیا۔

افغانستان کے سیکورٹی کے حکام نے آر ایف ای/ آر ایل کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں دو افغان پولیس افسران ہلاک ہوئے۔

پاکستان کے قبائلی افراد 16 اپریل کو افغانستان کے ساتھ سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ پاکستانی فوج کی جھڑپوں میں ان کی مدد کر سکیں۔ حکام نے 17 اپریل کو کہا کہ قبائلی بزرگوں نے جنگ بندی کے بارے میں کامیاب مذاکرات اور سرحد پر امن کی بحالی کے بعد، جوانوں کو واپس گھر بھیج دیا۔ ]محمد آحل[

پاکستان کے قبائلی افراد 16 اپریل کو افغانستان کے ساتھ سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ پاکستانی فوج کی جھڑپوں میں ان کی مدد کر سکیں۔ حکام نے 17 اپریل کو کہا کہ قبائلی بزرگوں نے جنگ بندی کے بارے میں کامیاب مذاکرات اور سرحد پر امن کی بحالی کے بعد، جوانوں کو واپس گھر بھیج دیا۔ ]محمد آحل[

امن، برادرانہ تعلقات کی بحالی

پاکستان اور افغانستان دونوں نے دعوی کیا ہے کہ دوسرے ملک کے فوجیوں نے جنگ کا آغاز کیا تھا۔

اس سے قطع نظر، کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے اور امن کو بحال کرنے کے لیے، قبائلی عمائدین اور سرحد کی دونوں اطراف کے حکام کو فوری طور پر شامل کیا گیا۔

کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ بصیر خان وزیر نے منگل کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم حالات کو پرسکون رکھنے اور پاک- افغان سرحد کے علاقے لاکا ٹیکا میں ہونے والی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی افراد، جنہوں نے جھڑپوں کے بعد سرحد کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا کو گھروں کو واپس بھیج دیا گیا ہے اور مستقبل میں کشیدگی سے بچنے کے لیے افغان حکام کے ساتھ قبائلی کونسلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے"۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک رکن، ساجد حسین طوری جن کا تعلق کرم ایجنسی سے ہے، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "قبائلی عمائدین اور سرحد پار (افغانستان میں) کے قبائلی افراد بھی حکام سے رابطے میں ہیں اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی افراد اپنی کوششوں کو، کشیدگی کو کم کرنے اور سرحد پر امن و سکون کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ "دونوں برادارنہ ممالک کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے سرحد کا انتظام بہت ضروری ہے جو کہ سرحد کی دونوں اطراف کی ذمہ داری ہے"۔

حاجی نور محمد جو کہ بنگش-طوری قبیلے کے بزرگ اور انجمنِ حسینیہ جو کہ کرم ایجنسی کے شہریوں کی نمائندگی کرنے والے عمائدین کا ایک شیعہ گروہ ہے، کے جنرل سیکریٹری ہیں، نے کہا کہ "سرحد کی دونوں اطراف کے شہری پشتون اور مسلمان ہیں اور مزید خون خرابے کو روکنا ان کی ترجیح ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم سرحد کی دوسری طرف قبائلی عمائدین کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہم پر امید ہیں کہ فوری مصالحت ہو جائے گی اور کشیدگی کو ختم کر دیا جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی بزرگوں نے نوجوان قبائلیوں کو ٹھنڈا کیا ہے جو کہ انتہائی غصے میں تھے اور جنہوں نے سرحد کی طرف مارچ شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "سرحد پر امن دونوں ممالک کے مفاد میں ہے"۔

جھڑپوں سے صرف دہشت گردوں کو فائدہ ہو گا

ولسی جرگہ (افغانستان کی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں) میں کنڑ کی نمائندگی کرنے والے صالح محمد صالح نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ "افغان اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان سرحد پر کبھی کبھار ہونے والی جھڑپیں دہشت گردوں کے مفاد میں ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے شہری دہشت گردی کے متاثرین ہیں اور مسائل کو حل کرنے اور دہشت گردی سے جنگ کرنے کے لیے،یہ دونوں حکومتوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ مل کر کام کریں

انہوں نے کہا کہ "افغانستان اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اچھی کامیابیاں حاصل کرنے اور علاقے میں استحکام کو لانے میں ناکامی کی صورت میں نکلا ہے۔ اس لیے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے

صالح نے کہا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد قائم کریں"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے عسکری تجزیہ نگار محمد طاہر یرغال نے اس بیان سے اتفاق کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کو عدم تحفظ اور دہشت گردی کا سامنا رہا ہے ایسی جھڑپوں سے دونوں اطراف کو صرف نقصان ہی پہنچے گا"۔

یرغال نے کہا کہ "افغانستان میں امن یقینی طور پر پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو مل کر دہشت گردی سے جنگ کرنے اور اسے شکست دینے کی ضرورت ہے اور اس سے دونوں (افغانستان اور پاکستان) کو فائدہ ہو گا"۔

]کابل سے سلیمان نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا امن کے معاہدے پر آ گئے ہیں تو بھارت اور پاکستان کے پاس ایک دوسرے کے لوگوں کو مارنے اور نقصان پہنچانے کی کوئی وجہ نہیں۔ افغانستان امن مزاکرات کا آغاز کرنے کی بہتر حالت میں ہے۔

جواب

Pakistani boder .or sahel kha vqea.

جواب

پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جواب