سلامتی

پاک امریکہ سلامتی معاہدے کی تجدید سے دفاعی اشتراک کے تسلسل کا اظہار

زرق خان

11 اگست کو اسلام آباد میں پاکستان میں امریکی سفیر ڈانلڈ ملوم اور پاکستان کے اس وقت کے سیکریٹری خارجہ اسد مجید پاک امریکہ تعلقات کے 75 برس مکمل ہونے پر ایک استقبالیہ میں یادگاری ٹکٹوں کی نقاب کشائی کر رہے ہیں۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ]

11 اگست کو اسلام آباد میں پاکستان میں امریکی سفیر ڈانلڈ ملوم اور پاکستان کے اس وقت کے سیکریٹری خارجہ اسد مجید پاک امریکہ تعلقات کے 75 برس مکمل ہونے پر ایک استقبالیہ میں یادگاری ٹکٹوں کی نقاب کشائی کر رہے ہیں۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ]

اسلام آباد – تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ سلامتی معاہدے کی مبینہ تجدید دونوں ملکوں کے مابین تضویری دفاعی تعلقات کو مستحکم تر کرتی ہے اور اس سے اسلام آباد کے لیے عسکری ساز و سامان کے حصول کی راہ ہموار ہو گی۔

پاکستان کی سابق کابینہ نے رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان اور امریکہ کے مابین مواصلات کے تعاملِ باہمی اور سلامتی معاہدے کی یادداشت (سی آئی ایس-ایم او اے) کی تجدید کی، جو کہ 2020 میں زائد المعیاد ہو چکی تھی۔

سرکاری ذرائع نے 3 اگست کو دی ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کابینہ کے ایک رکن نے سی آئی ایس – ایم او اے کے خلاصہ کی گردش کی تصدیق کی۔

دستخط ہونے کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا، اور کابینہ کے اس رکن نے یہ کہنے سے انکار کر دیا کہ آیا کابینہ کے ارکان کی اکثریت نے اس کی منظوری دی یا نہیں۔

16 مارچ، 2022 کو 23 مارچ کی یومِ پاکستان پریڈ کے لیے آزمائشی مشق کے دوران پاک فضائیہ کے F-16 لڑاکہ جیٹ ایک فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

16 مارچ، 2022 کو 23 مارچ کی یومِ پاکستان پریڈ کے لیے آزمائشی مشق کے دوران پاک فضائیہ کے F-16 لڑاکہ جیٹ ایک فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

امریکی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی (ڈی ایس سی اے) کے مطابق، سی آئی ایس-ایم او اے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین محفوظ مواصلات کے تعاملِ باہمی اور سلامتی کے لیے شرائط وضع کرتا ہے۔

ڈی ایس سی اے امریکی محکمۂ دفاع کے لیے غیرملکی عسکری فروخت کا انتظام کرتا ہے۔

اولاً 2015 میں 15 برس کے لیے دستخط ہونے والا یہ معاہدہ 2020 میں زائد المعیاد ہو گیا۔

اہم اتحادی

پاکستانی وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار، جنہوں نے اپنا نام استعمال نہ کیے جانے کی درخواست کی، نے کہا، ”سی آئی ایس – ایم او اے کو قبول کرنے سے مستقبل میں امریکی عسکری سازوسامن کی پاکستان کو فروخت ممکن بنے گی، جس سے مشترکہ عسکری آپریشنز اور مشقوں میں اضافہ ہو گا۔“

اس عہدیدار نے کہا، ”مزید برآں یہ معاہدہ امریکی عسکری ٹیکنالوجی اور تربیت تک رسائی کو وسعت دیتا ہے، جس سے پاکستان کی عسکری استعداد میں بہتری آئے گی۔“

تاہم ایک سبکدوش عسکری افسر، جو قبل ازاں امریکہ سے نمٹ چکا ہے، نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواہ معاہدہ ہو بھی جائے، تب بھی پاکستان کے لیے امریکہ سے عسکری سازوسامان خریدنا آسان نہیں۔

نئے دہلی اساسی سیکیورٹی تھنک ٹینک وِویکانندا انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (وی آئی ایف) کے مطابق، اس معاہدے کی اہمیت خطے میں اہم امریکی اتحادی کے طور پر پاکستان کے کردار پر موقوف ہے۔

وی آئی ایف نے 14 اگست کو شائع ہونے والے ایک تجزیہ میں کہا، ”سی آئی ایس – ایم او اے کا نفاذ امریکہ کو اجازت دے گا کہ وہ پاکستان کو جدید عسکری سازوسامان اور تربیت کی فراہمی میں اضافہ کر سکے۔“

اس میں مزید کہا گیا، ”اس کے بدلے میں، جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے، یہ دہشتگرد تنظیموں اور دیگر حریفین کی جانب سے درپیش متعدد خدشات کے خلاف پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔“

ڈی ایس سی اے کے مطابق، امریکی محکمۂ خارجہ نے 450 ملین ڈالر تک کی مالیت کے ایک معاہدے میں پاکستان کو تکنیکی معاونت، متعلقہ سازوسامان اور ایف-16 ہوائی جہازوں کی ممکنہ فروخت کی منظوری دی۔

اس وقت اس نے کہا، اس سے پاکستان ”انسدادِ دہشتگردی کی جاری کاوشوں میں اور مستقبل کی ہنگامی کاروائیوں میں امریکہ اور شریک افواج کے ساتھ تعاملِ باہمی برقرار“ رکھ سکے گا۔

پاکستان کے پاس اندازاً 85 ایف-16 ہیں۔

سیکیورٹی تعاون کا استحکام

سی آئی ایس – ایم او اے کی مبینہ تجدید کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان مواصلات میں تیزی آ گئی اور سرکاری دورے ہونے لگے، جو سرگرم تعلقات کا عندیہ ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ویدانت پاٹیل نے 15 اگست کو کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے لیے علاقائی استحکام کو درپیش خطرات کی انسداد ایک مشترکہ ہدف ہے۔

پاٹیل نے کہا، ”علاقائی استحکام کو درپیش خطرات کی انسداد اور عسکریت پسند اور دہشتگرد گروہوں سے لڑائی کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار رہنا ۔۔۔ ہمارا پاکستان کے ساتھ ایک مشترکہ مفاد ہے۔“

انہوں نے مزید کہا، دونوں ملکوں کے حکام ”باقاعدہ رابطہ میں ہیں۔“

پاٹیل نے کہا، ”ہم انسدادِ دہشتگردی اور اس طرز پر اپنے شہریوں کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی بھی حمایت کرتے ہیں جس سے قانون کی بالادستی فروغ پائے۔“

گزشتہ ماہ امریکی مرکزی کمان (سی ای این ٹی سی او ایم) کے سربراہ جنرل میکائیل ”ایریک“ کوریلا نے ایک برس سے کم کے عرصہ میں تیسری مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔

انہوں نے مسلح افواج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر سمیت پاکستان کے اعلیٰ عسکری عہدیداران سے سلامتی امور پر تبادلۂ خیال کیا، قومی مرکز برائے انسدادِ دہشتگردی اور پاک فوج سکول برائے نشانہ بازی کا دورہ کیا اور اعلیٰ عسکری عہدیداران سے بات چیت کی۔

امریکی قومی سلامتی کاؤنسل کے سنیئر ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا ریئر ایڈمرل ایلین لاؤباچر نے بھی جولائی میں اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا۔

وزیرِ خارجہ نے 20 جولائی کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ بلاول اور لاؤباچر نے ”پاک امریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے تجارت، معیشت اور توانائی میں تعاون کو وسعت دینے کے عزم کی تجدید کی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500